وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ حدیبیہ ملز کا مقدمہ شریف خاندان کی کرپشن کا سب سے اہم سرا ہے، نوازشریف اور شہبازشریف مرکزی ملزم کی حیثیت رکھتے ہیں،متعلقہ اداروں کو تفتیش کی ہدایات کی جارہی ہیں۔ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ آج وزیر اعظم عمران خان کو قانونی ٹیم نے شہباز شریف کے مقدمات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی ہے۔
حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ نئے سرے سے تفتیش کا متقاضی ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو تفتیش نئے سرے سے شروع کرنے کی بدایات دی جارہی ہیں۔ فواد چودھری نے کہا کہ حدیبیہ کا مقدمہ شریف خاندان کی کرپشن کا سب سے اہم سرا ہے۔ اس مقدمے میں شہباز شریف اور نواز شریف مرکزی ملزم کی حیثئیت رکھتے ہیں، جو طریقہ حدیبیہ میں پیسے باہر بھیجنے کیلئے استعمال ہوا اسی کو بعد میں ہر کیس میں اپنایا گیا۔
اس لئے اس کیس کو انجام تک پہنچانا از حد اہم ہے۔ یاد رہے آج وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت حکومتی رہنماوَں کا اہم اجلاس ہوا ہے۔ جس میں ملک کی سیاسی صورتحال اور وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب پر بات چیت کی گئی۔ شہبازشریف کے بیرون ملک روانگی سے متعلق عدالتی فیصلے پر بھی مشاورت کی گئی۔ شہزاد اکبر نے شہبازشریف معاملے پر وزیراعظم کو بریفنگ دی ۔
شہبازشریف کے معاملے پرعدالت سے رجوع کرنے سے متعلق بھی غورکیا گیا۔ دوسری جانب 08 مئی2021 کو لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی درخواست ضمانت کا تفصیلی تحریری فیصلہ جا ری کیا ہے۔ تفصیلی تحریری فیصلہ 27 صفحات پر مشتمل ہے ۔ تحریری فیصلہ جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس عالیہ نیلم پر مشتمل فل بنچ نے جاری کیا ۔
تینوں ججز نے جسٹس سرفراز ڈوگر کے شہباز شریف کی ضمانت کے فیصلے سے اتفاق کیاکیا۔ جسٹس اسجد جاوید گورال نے ضمانت سے اختلاف کیا تھا۔تحریر ی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دو ججز کی مختلف رائے کسی بھی جرم کو مشکوک قرار دیتی ہے۔ معاملہ مشکو ک ہو جائے تو شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے ۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوامی نمائندے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کرپٹ کو ذمہ داری سونپی جائے تو عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ عوامی نمائندے کا عزت ، احترام اور تکریم کا حامل ہونا لازم ہے ۔عوامی نمائندہ سو فیصد مسٹر کلین ہونا چاہیے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت اپنی حدود میں رہتے ہوئے کیسز تک محدود ہے ۔ موجودہ وقت میں ہم اخلاقیات سے رہنمائی اور مدد لیتے ہیں ۔ پراسیکیوشن کے موقف کو نا قابل تردید سچ نہیں سمجھتے۔
پراسیکیوشن نے کیس 110گواہوں کے ذریعے ثابت کرنا ہے ۔درخواست گزار بری ہوتے ہیں تو جو وقت جیل میں گزارا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ شہباز شریف پر زائد اثاثے رکھنے کا الزام ہے ، زائد اثاثوں کا دستاویزی ثبوت ریفرنس میں نہیں لگایا گیا ،ذرائع آمدن جاننے کے لئے بھی کھوج نہیں لگائی گئی، شہباز شریف کے نام پر ٹیلی گرافک ٹرانسفر بھی دستیاب نہیں۔
بے نامی ثابت کرنے کے لیے شخص کا خاندان کے افراد پر مالی لحاظ سے منحصر ہونا ضروری ہے، اثاثے نہ تو شہباز شریف کے نام پر ہیں اور نہ ان کے نام پر ایف ٹی ٹیز آئیں،نیب کے مطابق شہباز شریف ماڈل ٹاؤن رہائشگاہ کے مالک اور قابض ہیں جبکہ گھر نصرت شہباز کے نام پرہے،ماڈل ٹائون رہائش گاہ پر دونوں کا قبضہ ہے،نیب کے مطابق شہباز شریف کے اثاثے 269 ملین ہیں لیکن استغاثہ نے ثبوت ساتھ نہیں لگائے، شہباز شریف کے اکاونٹس میں پیسوں کے آنے کا عنصر موجود نہیں۔
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہماری جمہوریت کہ یہ ی بنیاد ہے کہ جب کسی سیاسی شخصیت پر کرپشن کے الزام لگے تو وہ سیاسی نقصان برداشت کرنے کا بھی پابند ہو، عدالت اپنی حدود میں رہتے ہوئے قانون کے مطابق کیسز تک محدود ہے، موجود وقت میں ہم اخلاقیات سے رہنمائی اور مدد لیتے ہیں، جب کسی فرد کی آزادی کا معاملہ آئے تو ہم پھر بنیادی اصولوں کے تحت ضمانت دینے یا خارج کرنے پابند ہیں۔کسی کے خلاف الزام کو ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہے،نیب نے تسلیم کیا ہے کہ اپنے خاندان کے نام پراثاثے بنوانے کے لیے شہباز شریف پر کسی سے کک بیکس لینے کا الزام نہیں،اسکی تفصیل خاندان کے دوسرے افراد دیں گے لیکن ہم صرف شہباز شریف کا کیس سن رہے ہیں۔