صرف دو دن قبل انہوں نے ایک جلسے میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ سازش امریکہ نے تیار کی اور پاکستان میں میر جعفروں نے اس کا ساتھ دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یہاں موجود تھے جنہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا اور ان دونوں جماعتوں کے کسی نامعلوم ہینڈلرز کی طرف بھی اشارہ کیا کہ انہوں نے اس سازش میں ان کی مدد کی۔ پھر بولے کہ یہ ہینڈلرز اگر واقعی چاہتے تھے کہ ملک میں حکومت تبدیل کی جائے تو ہم سے کوئی بہتر لا کر بٹھا دیتے لیکن انہوں نے وہی کرپٹ، چور لا کر بٹھا دیے جو پچھلے چالیس سال سے ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اب ان تمام چیزوں کو ملا کر پڑھا جائے تو یہ واضح ہے کہ امریکی سازش کو عملی جامہ پہنانا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بس کی بات نہیں تھی اگر ان کے پاکستان میں کوئی ہینڈلرز نہ ہوتے۔ یہ واضح کرنے کے لئے کہ ان کا اشارہ کسی کاروباری شخصیت یا بیوروکریٹ یا جج کی طرف نہیں، انہوں نے واشگاف الفاظ میں وضاحت کی کہ جو لوگ نہیں جانتے میر جعفر کون تھا، ان کے لئے بتا دوں کہ میر جعفر سراج الدولہ کا سپہ سالار تھا۔ اس کے بعد ابہام کی کوئی جنگائش رہ تو نہیں گئی تھی۔ بس نام لینا ہی باقی رہ گیا تھا۔ عہدہ تو موصوف بتا ہی چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کچھ ہی دیر کے اندر ISPR کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور اسے زبردستی اس کھیل میں نہ گھسیٹا جائے جس سے یہ دور رہنا چاہتی ہے۔ اس بیان میں ناصرف سیاستدانوں کو بلکہ اینکرز اور صحافیوں کو بھی تنبیہ کی گئی کہ وہ اس کام سے باز رہیں۔
سوموار کو پارلیمان میں اس طرزِ عمل کے خلاف بھرپور تقاریر ہوئیں، سوشل میڈیا پر بھی خوب سخت سست سنائی گئیں، اینکر حامد میر نے تو عمران خان کے پرانے کلپ نکال کر ٹوئیٹ کر دیں جن میں خان صاحب آرمی چیف کے بارے میں بڑے نیک کلمات ادا کر رہے تھے، انہیں 'نیوٹرل' ہونے کا سرٹیفکیٹ فراہم کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کے 'نیوٹرل' ہونے کو سراہ بھی رہے تھے۔ بلکہ فرما رہے تھے کہ ن لیگ کو ان سے محض یہ تکلیف ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو بچایا نہیں۔ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ جب ایبٹ آباد میں وہی عمران خان چلّا چلّا کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ نیوٹرل صرف جانور ہوتا ہے۔ نیوٹرل نہ رہو، حق اور باطل میں سے حق کا ساتھ دو۔ یقیناً حق وہ اپنے تئیں بن ہی بیٹھے ہیں۔ وہ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسٹیبلشمنٹ سے سوال کرے گا کہ حق اور باطل کی جنگ میں تم نیوٹرل تھے یا حق کے ساتھ کھڑے تھے۔ یعنی فوج کو ساتھ نہ دینے پر لعن طعن کی جا رہی تھی، میر جعفر کہہ کر غدار قرار دیا جا رہا تھا۔
مگر پھر منگل کی شام آئی اور چشمِ فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ جہلم میں تقریر کے دوران عمران خان صاحب کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے۔ بولے میر جعفر سے ان کی مراد فوج نہیں تھی، وہ تو شہباز شریف کو میر جعفر کہہ رہے تھے۔ اب شہباز شریف کس سراج الدولہ کے سپہ سالار ہیں، یہ انہوں نے نہیں بتایا۔ وہ باریکیوں میں نہیں پڑتے۔ بس جو منہ میں آیا، کہہ دیا اور آگے بڑھ گئے۔ اب مصر ہیں کہ شہباز شریف کا کوئی ہینڈلر ہے لیکن وہ سپہ سالار نہیں ہے کیونکہ میر جعفر تو شہباز شریف خود ہیں۔ ہینڈلر کون ہے، اس پر شاید اگلے کسی جلسے میں وضاحت سامنے آ جائے۔ لگتا یہی ہے کہ کہیں نا کہیں سے خان صاحب کا سافٹ ویئر بھی اپڈیٹ ہوا تو ہے۔ اب یہ سافٹ ویئر پارلیمنٹ کی تقاریر سے اپڈیٹ ہوا، شہباز شریف کی اس دھمکی سے ہوا کہ ان کے خلاف کیس کیا جائے گا، کیونکہ ظاہر ہے کیس ہوگا تو گرفتاری بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے جس کے بعد سارا انقلاب لسی کے جھاگ کی طرح بیٹھ سکتا ہے، یا پھر عوامی ردِ عمل کے ڈر سے۔ کیونکہ اگر تھوڑا سا غور کریں تو یہ تو بڑا واضح ہے کہ خان صاحب نے جس دن اس تحریک کا بقول ان کے آغاز کیا تھا تو میانوالی میں ان کے جلسے میں ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ تعداد اتوار کو ایبٹ آباد جلسے تک اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ خود عمران خان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں موصوف کہہ رہے تھے کہ اتنی چھوٹی سی گراؤنڈ میں جلسہ کروا دیا تم نے۔ پیغام وہ یہ دینا چاہتے تھے کہ عوام تو بہت تھے، گراؤنڈ ہی چھوٹا تھا جس کی وجہ سے تاحدِ نگاہ مجمع ہی مجمع نہیں دکھائی دیا۔ یہ شوق لیکن منگل کی شام فواد چودھری نے پورا کر دیا۔ انہوں نے جلسہ رکھا جہلم کے سٹیڈیم میں اور رکھا بھی شام کے وقت۔ لیکن جیسے اس جلسے میں کی گئی تقریر کسی تبصرے لائق نہیں تھی، ویسے ہی اس کی تعداد کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔
افسوس ہوتا ہے جب وہ شخص جو کبھی قوم کا غیر متنازع ہیرو تھا، آج جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے حق میں دھاندلی، بے ایمانی کرنے کی بھیک مانگتا ہے۔ ڈانٹ پڑتی ہے تو جھوٹی سچی وضاحتیں کرتا پھرتا ہے، اور یہ سب محض اس کرسی کی خاطر جس کے بارے میں کبھی بڑی شان سے کہتا تھا، مجھے کرسی کی ضرورت نہیں، اللہ مجھے سب دے بیٹھا ہے۔