گذشتہ روز پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں اداروں کے خلاف بیانات دینے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا کو قتل کی دھمکیاں دینے کے مقدمے میں ضمانت میں توسیع کے لیے پیش ہوئے تھے۔
کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری اور ان کے بھائی فیصل چودھری سمیت دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ چونکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے عمران خان کو 7 مقدمات میں 23 مئی تک عبوری ضمانت مل چکی تھی تو توقع یہی کی جا رہی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بھی ان دونوں مقدمات میں عبوری ضمانت میں توسیع کر دے گی۔
عمران خان کی گاڑی جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے گیٹ پر پہنچی اور جونہی وہ گاڑی سے اترے تو انہیں وہیل چیئر پر بٹھا کر بائیو میٹرک کے دفتر تک پہنچایا گیا۔ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کی استدعا کے لیے بائیو میٹرک کروا رہے تھے۔ ابھی ان کی بائیو میٹرک کا عمل مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اسی دوران خاصی تعداد میں رینجرز اہلکار وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے پہلے تو دورازہ کھٹکھٹایا اور جب دروازہ نہ کھولا گیا تو رینجرز اہلکاروں نے کھٹرکیوں کے شیشے توڑے اور پھر دفتر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔ رینجرز اہلکاروں نے دفتر میں داخل ہو کر سپرے کیا جس کی وجہ سے کمرے میں موجود افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں۔ عمران خان کی سکیورٹی پر موجود عملے نے کچھ مزاحمت کی جس پر رینجرز اہلکاروں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اورعمران خان کو وہاں سے گرفتار کر کے لے گئے۔
قومی احتساب بیورو نے عمران خان کو نیشنل اکاؤنٹیبیلٹی آرڈیننس 1999 کے سکیشن 9 اے کے تحت القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا۔ نیب کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد نے یکم مئی کو عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔ عمران خان کو نیب نے 34 اے، 18 ای اور 24 اے کے تحت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے گرفتار کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے کمرہ عدالت کے باہر موجود پولیس اہلکار کے مطابق عدالتی حدود میں واقع بائیو میٹرک کے دفتر کے باہر موجود پولیس اہلکاروں کو حملہ کر کے زخمی کر دیا گیا تاہم یہ حملہ پی ٹی آئی رہنماوں نے نہیں بلکہ رینجرز اہلکاروں نے کیا تھا۔ اس کے بعد رینجرز اہلکاروں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کر لیا۔ پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری کو بھی علم نہیں تھا کہ عمران خان کو کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت کو اندر سے بند کر دیا گیا اور کسی کو اندر سے باہر اور باہر سے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کے موقع پر عدالتی احاطے میں ہونے والی توڑ پھوڑ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اور سیکرٹری داخلہ کو فوراً طلب کر لیا تھا۔ اسی دوران کمرہ عدالت میں موجود فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کمرہ عدالت کی کھڑکی کھول کر باہر موجود وکلا سے اس واقعہ پر احتجاج کرنے کو کہا۔
بی بی سی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق فواد چودھری اپنے بھائی فیصل چودھری کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے اور کہا کہ 'عمران پھڑیا گیا اے، چل آ جا' اور یہ کہہ کر وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔
اسی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ عمران خان کی سکیورٹی پر فوج سے ریٹائرڈ کمانڈوز تعینات تھے۔
عدالتی احاطے میں موجود لوگوں کی جانب سے حیرانگی کا اظہار بھی کیا گیا کہ عمران خان بہت جلدی صحت یاب ہو گئے۔ آئے وہیل چیئر پر اور اپنے پاؤں پر چل کر گئے۔
آج عمران خان کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا گیا۔ نیب کی جانب سے عمران خان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے عمران خان کو 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔