مجھے اپنے ایک دوست کے ساتھ 1986 میں پینوراما سینٹر، کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ پینوراما سینٹر اس وقت کراچی کا ایک ماڈرن اور جدید پلازہ کہلاتا تھا جہاں بڑے بڑے دفاتر اور دکانیں موجود تھیں۔ جب ہم پلازے کی ایک لفٹ کی طرف بڑھنے لگے تو وہاں سے ایک بڑی بڑی مونچھوں والا شخص برآمد ہوا جس نے پانچ یا چھ سال کا ایک بچہ اٹھا رکھا تھا۔ اس شخص کے پیچھے تین اور افراد چل رہے تھے جو کہ غالباً اس کے اسسٹنٹ تھے۔ جب وہ لوگ لفٹ سے باہر نکلے تو بچہ چلایا "دنیا گول ہے"۔ پیچھے چلتے اسسٹنٹ مسکرائے اور تالیاں بجاتے ہوئے بولے زبردست۔ تقریباً آدھا گھنٹہ صرف کرنے کے بعد دوسرے فلور سے ہم نے واپس گراؤنڈ فلور جانے کیلئے لفٹ کا بٹن دبایا۔ جونہی لفٹ کا دروازہ کھلا، وہی بچہ سامنے موجود تھا اور وہ ایک بار پھر چلایا "دنیا گول ہے"۔ اسسٹنٹ پھر مسکرائے اور تالیاں بجاتے ہوئے بچے کی تعریف کرنے لگے۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد جب ہم ایک کپڑوں کے برانڈڈ سٹور سے ملحقہ بیرونی دروازے سے عمارت سے باہر نکل رہے تھے تو ہم نے ایک بار پھر اسی بچے کی آواز سنی "دنیا گول ہے"۔ یہ آواز دکان کے اندر سے آ رہی تھی لیکن اس مرتبہ نہ تو بچے کے اس جملے پر تالیاں بجیں اور نہ ہی کوئی تعریف و تحسین کے الفاظ دہرائے گئے۔
یہ غیر ضروری سی یاد میرے ذہن میں مشہور ماہر نفسیات جے پی داس کی کتاب کنڈیشنگ اینڈ بیہیویئر (Conditioning and Behaviour) پڑھنے کے بعد آئی۔ جے پی داس کے مطابق جب کسی لفظ کو بار بار کسی سامع کے سامنے دہرایا جائے تو اس کی نظروں میں وہ لفظ وقعت کھو کر غیر ضروری ہو جایا کرتا ہے۔ 1962 میں لیون جیمز (Leon James) جو کہ علم نفسیات کا پروفیسر تھا، نے اس رجحان کو "سیمنٹک سیٹی ایشن" ( semantic satiation) قرار دیا۔ سیمنٹک سیٹی ایشن اس رجحان کو کہا جاتا ہے جس کے تحت بار بار دہرائے جانے پر الفاظ اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر لیون جیمز کا دہائیوں ہہلے کیا گیا کام اب جا کر اس مصروف ترین سروس انڈسٹری کو سمجھ میں آیا ہے جو کئی سالوں سے پیغام کو بار بار دہرانے کے مضمرات کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ یہ انڈسٹری ایڈورٹائزمنٹ (اشتہاروں) کی ہے۔ مشہور لکھاری اور صحافی زاچرے پیٹٹ (Zachary Petit) نے 2015 میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ مارکیٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اب اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر رہے ہیں جس کا سہرا جیمز لیون کی تحقیق کے سر جاتا ہے۔ مثال کے طور پر "بلیک فرائڈے" کی اصطلاح کبھی شاپنگ کرنے والے گاہکوں کیلئے ایک خاص معنی رکھتی تھی، لیکن پیٹٹ کے مطابق اس اصطلاح کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے اب "بلیک فرائڈے" کی اصطلاح عام افراد کیلئے ویسے اہمیت کی حامل نہیں رہی جیسا کہ پہلے کسی دورمیں ہوا کرتی تھی۔
انقلاب
ایک اور دلچسپ مثال لفظ " انقلاب" کے استعمال کی ہے۔ 1995 میں میں نے اپنے ایک صحافی کولیگ کے ساتھ مل کر اس لفظ انقلاب کے استعمال پر تحقیق کا آغاز کیا۔ ہم نے ڈان اخبار کی لائبریری میں 1950 سے لے کر 1995 تک کے ڈان اخبار کے مختلف ایڈیشنوں کو غور سے پڑھا۔ ہماری تحقیق کے مطابق لفظ " انقلاب" ساٹھ کی دہائی کے آخر تک حقیقی معنوں میں سیاسی انقلاب لانے کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ البتہ 60 کی دہائی کے ہی آخری سالوں سے دائیں اور بائیں بازو کی مرکزی سیاسی جماعتوں اور چند نوجوان گروہوں نے اس لفظ کا استعمال بیحد عام کر دیا۔ اس تحقیق کے دوران ہماری نظروں سے ستر کی دہائی کے وسط میں ڈان اخبار میں دیا گیا ایک فرنیچر بنانے کی کمپنی کا اشتہار گزرا۔ اس فرنیچر برانڈ نے اشتہار میں لکھا تھا کہ ہماری بنائی گئی دفاتر کے استمال کی کرسیاں "انقلابی سویڈش ٹیکنالوجی" کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہماری نظروں کے سامنے سے الیکٹرانک اشیا، ادوایات، چپس، چاکلیٹس، کوکنگ آئل اور ڈٹرجنٹ کے لاتعداد اشتہارات گزرے جن سب میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان اشیا کو تیار کرنے کا طریقہ "انقلابی" تھا یا یہ اشیا "نئے انقلابی فارمولے" کی مدد سے بنائی گئی تھیں۔
اسلام خطرے میں ہے
پاکستان میں تین اور الفاظ یا اصطلاحات ایسی ہیں جو میرے خیال میں "سیمنٹک سیٹی ایشن" کی نہج پر پہنچ چکی ہیں۔ پہلی اصطلاح ہے "اسلام خطرے میں ہے"۔ یہ اصطلاح 1946 میں برطانوی زیر تسلط ہندوستان میں عام انتخابات کے موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے متعدد بار استعمال ہوئی۔ مسلم لیگ انتخابات مسلمانوں کے ایک الگ وطن کے قیام کے مطالبے کے بیانئے پر لڑ رہی تھی۔ معروف تایخ دان ڈاکٹر مبارک کے مطابق یہ اصطلاح پہلی بار اسلامی ایکٹوسٹوں کی جانب سے تحریک خلافت (1919-1924) میں استعمال کی گئی۔ پاکستان کے قیام میں آنے کے بعد "اسلام خطرے میں ہے" کی اصطلاح مذہبی جماعتوں کا تکیہ کلام بن گئی جنہوں نے اسے مختلف سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے پس منظر میں استعمال کیا۔ مثال کے طور پر ایوب خان کی سیکولر پالیسیوں، ذوالفقار علی بھٹو کی سوشلسٹ پیپلز پارٹی کی مقبولیت، سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستی کا رجحان، بینظیر بھٹو کا وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنا، 90 کی دہائی میں پاپ میوزک کی مقبولیت اور موسیقی کے کانسرٹس کا فروغ، 2015 میں وجود میں آنے والا نیشنل ایکشن پلان اور پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین میں تبدیلیوں کی کوشش کا الزام، ان تمام مواقع پر مذہبی جماعتوں نے "اسلام خطرے میں ہے" کی اصطلاح کا استعمال کیا ۔اس سجہ سے نہ صرف یہ اصطلاح اپنی افادیت اور معنی کھو بیٹھی بلکہ اس کا استعال اب ذہن میں فوراً ایک ایسی مزاحیہ تصویر بنا دیتا ہے جس میں مولوی گلا پھاڑتے ہوئے نعرے لگا رہا ہوتا ہے اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہوتا ہے۔
پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے
دوسری اصطلاح جو "سیمینٹک سیٹی ایشن" کے معیار پر پورا اترتی ہے وہ "پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے" کی ہے۔ ایوب خان نے جب اسے پہلی دفعہ استعمال کیا تو یہ اصطلاح کافی مفید ثابت ہوئی کیونکہ یہ 50 کی دہائی کی سیاسی افراتفری کی واضح تصویر کشی کرتی تھی۔ 1971 میں جب سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹو نے اس اصطلاح کو استعمال کیا تو تب بھی اس کی افادیت موجود تھی کیونکہ مشرقی پاکستان ہم سے ایک سول وار کے بعد علیحدہ ہو چکا تھا۔ لیکن جب ضیاالحق نے اس اصطلاح کو اپنے فوجی مارشل لا کو جواز بخشنے کیلئے استعمال کیا تب سے یہ اصطلاح اپنی افادیت کھونے لگی۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک تقریباً ہر پاکستانی حکمران نے اسے استعمال کیا اور نتیجتاً یہ اصطلاح بھی اپنی افادیت اور معنی مکمل طور پر کھو بیٹھی۔ بلکہ اب تو یہ طنز و مزاح کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔
"کرپشن" کی اصطلاح یا لفظ بھی غیر معمولی طور بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ 90 کی دہائی سے لے کر آج تک اسے اتنی زیادہ مرتبہ دہرایا گیا ہے کہ اب مختلف طبقات کیلئے اس کے معنی بالکل مختلف اور جدا ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب اس اصطلاح کو پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے بار بار دہرایا جاتھا تھا تو اس کا مطلب "کرپٹ پیپلز پارٹی" ہوا کرتا تھا، جب پیپلز پارٹی اسے استعمال کرتی تھی تو اس کا مطلب "کرپٹ مسلم لیگ نواز" ہوا کرتا تھا۔ اور اب جب کرپٹ کی اصطلاح تحریک انصاف کی جانب سے استعمال ہوتی ہے تو اس کا مطلب "کرپٹ مسلم لیگ نواز/پیپلز پارٹی مافیا" ہوتا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی جانب سے اسے جب استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب تحریک انصاف میں شامل "الیکٹیبلز" ہوتا ہے۔ "سیمنٹنک سیٹی ایشن" سماج کے مختلف طبقات سے بھی منسلک ہوتی ہے۔ میرا ایک دوست ایک "جدید" ڈھابے پر چائے پی رہا تھا، اس کے سامنے ہی اصلی اور روایتی ڈھابہ بھی موجود تھا۔ اتفاق سے دونوں ڈھابوں پر ایک ہی وقت میں ٹی وی پر ایک جیسے خبروں کے چینل دکھائے جا رہے تھے۔ میرا دوست کہتا ہے کہ ٹی وی پر عمران خان کا ایک کلپ دکھایا گیا جس میں وہ کرپشن کے خلاف دہائیاں دے رہے تھے۔ اس کے مطابق جدید اور فیشن ایبل ڈھابے میں موجود نوجوانوں نے سر اٹھایا اور سرسری انداز میں عمران خان کا کلپ دیکھنا شروع کر دیا جبکہ روایتی ڈھابے میں موجود مزدور اور چھوٹی چھوٹی ملازمت پیشہ کلاس نے ٹی وی کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے چائے کی چسکیاں لینے کا عمل جاری و ساری رکھا۔
شاید ان کے نزدیک لفظ "کرپشن" اپنی اہمیت اور مفہوم کھو چکا ہے۔ یہ پس منظر میں پیدا ہونے والے غیر ضروری شور کی مانند ہو چکا ہے۔ شاید یہ بھی "دنیا گول ہے" کی مثال جیسا ہے۔