پاکستان میں سکھوں کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال متروکہ وقف املاک بورڈ کرتا ہے تاہم پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی بھی قائم ہے۔ جو مذہبی رسومات کے لیے پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کے انتظام و انصرام کی ذمہ دار ہے۔
وائس آف امریکا کے مطابق گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور کے علاوہ پاکستان میں 18 گوردوارے ایسے ہیں جہاں سکھ مذہبی عبادات کے لیے آتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں مزید دو گوردوارے بحال کیے گئے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل فعال تھے۔
یہ بھی پڑھیں:کرتارپور راہداری سے متعلق 7 حقائق جو شاید آپ نہیں جانتے ہوں گے
پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے مطابق پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات کی تعداد لگ بھگ 153 ہے۔ تاہم 1947 میں تقسیم کے ہند کے بعد سے متعدد گوردوارے بند پڑے ہیں۔ اور ان کی عمارتیں خستہ حال ہو چکی ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک 20 گوردواروں کو بحال کیا ہے جن میں سے 18 بڑے گوردوارے ایسے ہیں جہاں سکھ یاتری عبادات کے لیے آتے ہیں۔
گوردوارہ 'جنم استھان' ننکانہ صاحب
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ضلع ننکانہ صاحب پوری دنیا میں سکھ مذہب کے بانی گرو بابا نانک کی پیدائش کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔
اقبال قیصر ممتاز تاریخ دان اور شاعر ہیں جنھوں نے پنجاب اور سکھوں کی تاریخ پر کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بابا نانک کی پیدائش 1469 میں ہندو مذہب کے ماننے والے والدین کے گھر میں ہوئی تھی۔ سکھ روایات کے مطابق، گرو نانک کی پیدائش کے وقت اور زندگی کے ابتدائی برسوں سے کئی حیرت انگیز واقعات منسوب ہیں۔
تاریخ دان پروفسیر محمد خالد کے مطابق 24 ستمبر 1487 کو گرو نانک نے ماتا سلکھنی سے بٹالا میں شادی کرلی۔مسلمانوں سے تعلق پیدا کرنے کے لیے مسلمان عورت جس کا نام مختلف روایات اور کتابوں میں بی بی خانم ملتا ہے جبکہ سکھ مذہب کے لوگ انھیں ماتا مجھوت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ تاہم بعض تاریخ دان اس شادی سے انکار کرتے ہیں۔
اقبال قیصر کے مطابق گرو بابا نانک کی تعلیمات نے لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ جس مقام پر ان کی پیدائش ہوئی اور انھوں نے اپنا بچپن گزارا وہاں پر اب دربار صاحب ننکانہ قائم ہے۔
بابا گرو نانک نے ننکانہ صاحب ہی سے سکھ مذہب اوراس کی تعلمیات کا آغاز کیا تھا اور اسی وجہ سے اس شہر کو سکھ مذہب میں انتہائی مقدس سمجھا جاتا ہے۔
دربار صاحب کرتار پور
دربار صاحب کرتا پور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ناروال کا سرحدی علاقہ ہے۔ اقبال قیصر کے مطابق سکھ مذہب کے بانی گرو بابا نانک نے اپنی زندگی کے آخری سال اسی مقام پر تبلیغ میں گزارے تھے اور اسی مقام پر وفات پائی تھی۔
گرو نانک 1521 کو اس مقام پر تشریف لائے اور کرتارپور کے نام سے ایک گاؤں کو آباد کیا۔طاقبال قیصر کے مطابق یہ مقام جہاں سکھوں کے لیے انتہائی مقدس ہے وہیں اس مقام پر دیگر مذاہب کے لوگ، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، حاضری دیتے ہیں۔ روایات کے مطابق بابا گرو نانک کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گرو اور مسلمان اپنا بزرگ پیر مانتے تھے۔
22 ستمبر 1539 کو جب گرو نانک کا انتقال ہوا تو سکھوں اور مسلمانوں میں تنازع پیدا ہوا کہ گرو نانک کی آخری رسومات اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق ادا کریں۔
کہا جاتا ہے کہ اس جھگڑے کے فیصلے کے لیے کسی درویش کے کہنے پر گرو نانک کے جسم سے چادر اٹھائی گئی تو ان کے جسم کے بجائے وہاں پر پھول موجود تھے۔
فیصلے کے مطابق چادر اور پھولوں کو برابر دو حصوں میں بانٹ کر اپنی اپنی مذہبی رسومات کے مطابق مسلمانوں نے چادر اور پھولوں کو دفن کیا جبکہ سکھوں نے اسے جلا کر سمادھ استھان بنا لیا اور آج بھی یہ دونوں نشانیاں قائم ہیں۔
برطانیہ میں مقیم ایک اور ممتاز تاریخ دان، بوبی سنگھ بنسل کے مطابق کرتارپور میں گرودوارہ صاحب کی تعمیر پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر نے سنہ 1921 تا 1929 کے درمیان کروائی۔
گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور
لاہورمیں گوردواروں کی تعداد 39 ہے جن میں سے چارگوردوارے فعال ہیں۔ ان میں سے گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور سب سے اہم ہے جسے سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیوجی کا شہیدی استھان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گوردوارہ لاہور شہر کے وسط میں تاریخی بادشاہی مسجد اور شاہی قلعے کے وسط میں قائم ہے۔
اس کے علاوہ لاہور میں گوردوارہ شہیدگنج، گوردوارہ گورورام داس، گوردوارہ بےبے نانکی شامل ہیں۔ یہیں پنجاب کے سابق حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی یعنی جہاں انہیں جلایا گیا بھی موجود ہے۔ حال ہی میں لاہور کے شاہی قلعے کے باہر مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ جس میں انہیں گھوڑے پر سوار دکھایا گیا ہے۔ سکھ یاتری پاکستان کے دورے کے دوران گوردوارہ ڈیرہ صاحب بھی ضرور آتے ہیں۔
گوردوارپنجہ صاحب حسن ابدال
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے پشاور کی جانب بذریعہ گرینڈ ٹرنک(جی ٹی) روڈ سفر کریں تو تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر حسن ابدال میں گوردوارہ پنجہ صاحب موجود ہے۔ سکھوں کے مطابق یہاں ایک پتھر پر باباگورونانک کا پنجہ لگا ہوا ہے۔ یہ گوردوارہ 1823 میں سردار ہری سنگھ نے تعمیر کرایا تھا۔
سکھوں کے دیگر مذہبی مقامات
پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے مطابق ضلع قصور میں سکھ گوردواروں کی تعداد 17 ہے تاہم ان میں سے کوئی بھی گوردوارہ فعال نہیں ہے۔ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں سکھ گوردواروں کی تعداد 10 ہے۔ ضلع سیالکوٹ میں گوردواروں کی تعداد 11 ہے۔ ان میں سے گوردوارہ 'بابے دی بیر' کو کچھ عرصہ پہلے ہی سکھوں کے لیے کھولا گیا ہے۔
پنجاب کے ضلع راولپنڈی، شیخوپورہ، اوکاڑہ اور ساہیوال میں بھی سکھوں کے پانچ، پانچ گوردوارے ہیں۔ جھنگ اور حافظ آباد میں چار، چار، جہلم میں تین، چکوال، وہاڑی، ڈیرہ غازی خان، ملتان، فیصل آباد، خوشاب، بہاولپور، خانیوال اور خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک، ایک گوردوارہ موجود ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں دو، ڈیرہ اسماعیل خان میں تین، مانسہرہ میں دو، ہزارہ میں دو گوردوارے ہیں۔ سندھ میں کراچی، شکار پور، سکھر میں دو، دو گوردوارے ہیں۔ لاڑکانہ، میر پور خاص، کوئٹہ، قلات اور گلگت بلتستان میں بھی سکھوں کا ایک، ایک گوردوارہ موجود ہے۔
سردار امریش سنگھ اروڑا کا کہنا ہے کہ دربار صاحب کرتار پور کے افتتاح سے سکھ برادری بہت خوش ہے۔ ان کے بقول پاکستان سے متعلق اگر سکھ برادری کے بعض افراد کی منفی رائے تھی تو وہ اس اقدام کے باعث تبدیل ہو گی۔