مفتی طارق مسعود کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر اس وقت وائرل ہے جس میں موصوف آمریت، اور جمہوریت میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے رخنے ڈالے جانے کو بڑا ہی نیک عمل خیال کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں پاکستان میں جمہوریت آ گئی تو ملک کے اکثر لوگ معذرت کے ساتھ بیوقوف ہیں اور وہ بیوقوفوں کو منتخب کریں گے۔
اس کے بعد مفتی جی ایک قدم اور آگے گئے اور اعلان فرما دیا کہ اکثر ہمارے جمہوری طرز پر منتخب ہو کر آنے والے حکمران ملک دشمن ہوتے ہیں، وہ اپنی جیت اور پیٹ کو پہلے دیکھتے ہیں، ملکی مفاد ان کی نظر میں دوسرے نمبر پر ہوتے ہیں۔ وہ بیچ دیں ملک کو، ختم کر دیں۔
یہیں پر بس نہیں ہوئی۔ فرماتے ہیں کہ اگر ہماری ایجنسیاں ان جمہوری حکمرانوں کو ہمارے ایٹمی اثاثوں کا پتہ بتا دیں تو کیا یہ اثاثے ایک دن بھی محفوظ رہ سکتے ہیں؟ مجمعہ پتہ نہیں کتنا تھا۔ بڑی مشکل سے ایک ہی بندے نے سوچا کہ اس کی بات آگے تو چلائی جائے، اس نے کہہ دیا نہیں رہ سکتے۔ اس پر جواب دیا کہ اتنی بڑی حقیقت جانتے بوجھتے بھی آپ اس جمہوریت کے قائل ہو؟ یعنی جن حکمرانوں سے آپ کو یہ بھی امید نہ ہو کہ یہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کر سکتے ہیں، وہ آپ کے ملک کی کہاں حفاظت کریں گے؟ تو یہ اچھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کو قابو کیا ہوا ہے۔
پہلے ذرا چند سطروں میں مفتی جی کی چند باتوں کا جواب اور پھر ان کی نیت اور سوچ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں مفتی جی جرنیلوں کی جانب سے اپنا حلف توڑنے کے عمل کو ان کی نیکی بتا رہے ہیں۔ آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ مذہب پر ان کی تشریحات اور فتاویٰ کتنے معتبر ہوں گے کہ جنہیں یہی اندازہ نہیں کہ یہ جرنیل یہ سب کچھ ایفائے عہد کے لئے آئے تمام احکامات کی خلاف ورزی میں کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لئے واقعتاً شاید قرآن کی آیتیں پرانے لوگوں کی حکایتوں کے سوا کچھ نہیں کہ جن میں اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات پر تدبر کرنے کی بھی صلاحیت نہیں۔ ماضی سے سبق سیکھنے کی اہلیت کو تو ایک طرف رکھیے۔
پھر انہوں نے کہا کہ عوام بیوقوف ہیں، اس لئے غلط حکمران منتخب کریں گے۔ افسوس کہ اس ملک میں ملاؤں کو ہزاروں مساجد میسر ہیں۔ ان کے منبروں پر بیٹھ کر انہیں دن میں پانچ مرتبہ وعظ کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ تعلیم یہاں کسی کو فراہم کی جا سکے یا نہ کی جا سکے، مسجد لیکن سب کی دسترس میں ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ وعظ فرمانے کے بعد، مہینے میں 150 مرتبہ عوام سے مخاطب ہو کر ہر سال مختلف مساجد میں لاکھوں مرتبہ عوام کو پند و نصائح کرنے کے بعد اگر کوئی شکایت کرے کہ عوام بیوقوف ہیں تو پھر ان منبروں سے گلے پھاڑ پھاڑ کے تقاریر کرنے والوں کی زبانیں تو بے اثر ثابت ہوئیں۔ اب زبان میں ایسی بے تاثیری یا تو جھوٹ کی بہتات سے آتی ہے یا پھر کم علمی کی وجہ سے۔ جو بھی ہے، کم از کم ان کا ماڈل تو ناکام ہے۔ کیونکہ ان سے پہلے مولوی طارق جمیل صاحب بھی فرما چکے ہیں کہ عوام میں شعور نہیں۔ انہیں بھی اگر حوروں کی پیمائش سے فرصت ہوتی تو قوم میں کچھ شعور ہی بانٹ دیتے۔
پھر بولے منتخب سیاستدان ملک دشمن بھی ہوتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ ساری زندگی سیاسی عمل میں یقین رکھتے رہے، منتخب ہوتے رہے اور بالآخر جمہوری جدوجہد سے یہ ملک حاصل کیا۔ لیکن عوام کے ووٹوں سے منتخب پہلے لیڈر کو چھ ماہ جیل کی کال کوٹھڑی میں بند رکھ کر ملک ان لوگوں نے توڑ دیا جو منتخب نہیں تھے۔ ملک کے ایٹمی راز بیچنے والے سب کے سب غیر منتخب تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر سے معافی منگوانے والے غیر محب وطن تھے۔ جو جو اس گھناؤنے کھیل میں شامل تھے، سب کے سب غیر منتخب تھے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا صلہ ایک منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو یہ دیا گیا کہ اس کو پھانسی پر جھولنا پڑا۔ اور جس نواز شریف نے بے پناہ عالمی دباؤ کے باوجود اس ملک کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی دھماکے کیے، وہ جلا وطن ہوا، جیلوں میں سڑا، غدار ٹھہرا اور آج بھی معتوب ہے۔ دوسری جانب مفتی جی کے ممدوحین کا حال یہ ہے کہ جس ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم بنایا، اپنے گناہ بھی اس کے سر ڈال کر اسی کو سالوں نظربند رکھا اور وہ اسی کیفیت میں جان کی بازی ہار گیا جب کہ وہ اکیلا کبھی پاکستان کے ایٹمی راز یا ایٹمی مواد کسی دوسرے ملک کو سمگل کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کا ساتھ دینے والے بھی وہی تھے جن کے پاس بقول مفتی جی کے سارے راز موجود ہیں۔ سویلینز کو تو یہ راز بقول ان کے معلوم ہی نہیں لہٰذا کم از کم ان پر ایٹمی راز بیچنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
اب یہ تو تھا پھکی والا جواب۔ اب آتے ہیں ذرا مفتی کی کی سوچ کے پوسٹ مارٹم کی طرف۔ یہ مفتی جی وہی ہیں جو ابھی کچھ دن قبل جہلم پہنچے ہوئے تھے اور وہاں سے ویڈیو پر ویڈیو اپلوڈ کر رہے تھے کہ میں مناظرہ کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں مگر انجینیئر محمد علی مرزا کی جانب سے نہ تو کوئی رابطہ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی رابطوں کا جواب دیا جا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت کر کے دکھائیں گے کہ جو کچھ بنو امیہ کی چند شخصیات کے بارے میں انجینئر محمد علی مرزا نے کہا ہے وہ درست نہیں بلکہ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہ مناظرہ کیوں نہ ہو سکا، اس کے لئے آپ یوٹیوب پر دونوں حضرات کی ویڈیوز دیکھ لیجیے اور جو جی میں آئے اس سے اخذ کر لیجیے۔ ہمارے لئے تو فیصلہ ہو گیا۔ مفتی جی نے خود ہی ثابت کر دیا کہ وہ ملوکیت کے داعی ہیں۔ اسی لئے تو وہ ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی کی ملوکیت کا دفاع کرتے ہیں اور بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی ملوکیت کے حق میں ہیں۔
تاریخی مذہبی شخصیات کی بات ہم نہیں کرتے کہ یہ ہمارا کام نہیں۔ اس کے لئے محققین موجود ہیں اور وہ اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہم تو اس ملک کی سیاسی صورتحال کو دیکھ سکتے ہیں، جس کی ہمیں مفتی صاحب سے تو کم از کم بہتر سمجھ ہے۔ جنرل ایوب خان کی پالیسیوں نے بنگال کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک اکثریت ملک کی اقلیت سے تنگ آ کر بھاگ گئی اور اپنا علیحدہ ملک بنا لیا۔ قدرت اللہ شہاب 'شہاب نامہ' میں رقم طراز ہیں کہ ایک بار ایوب خان کو مشورہ دیا کہ آپ نے ڈھاکہ میں جو پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت بنوائی ہے، ایک آدھ اجلاس بھی وہاں بلا لیجیے تو جنرل صاحب نے جواب دیا کہ بنگالی جب آزادی حاصل کر لیں گے تو وہ وہاں اجلاس بلایا کریں گے۔ اب اگر یہ جملہ ملک بیچنے کا ثبوت نہیں تو کم از کم اس تضحیک کا غماز تو ہے جو بنگالیوں کے حقوق کے حوالے سے اس آمر نے روا رکھی مگر مفتی جی کا ہیرو ٹھہرا۔ یحییٰ خان نے اقتدار عوام کے حقیقی نمائندے کو منتقل کرنے پر ملک کو توڑنا افضل جانا مگر مفتی جی کے لئے ملک دشمن سویلین ہیں۔ جنرل ضیا نے ملک کو ایک جنگ میں جھونک دیا، یہاں کلاشنکوف کلچر عام ہوا، ہیروئن کا کلچر عام ہوا۔ جنرل مشرف نے پھر یہی جنگ امریکہ کے لئے لڑی اور وہ بھی مفتی صاحب کا ممدوح ٹھہرا کیونکہ جرنیل ہے۔
ویسے دیکھا گیا ہے اس قسم کے کم فہم مولویوں کو اکثر ضیا میں تو مردِ مومن نظر آتا ہے، مشرف کے حامی لیکن یہ نہیں ہوتے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں کی جنگوں کا نتیجہ ملک میں بدامنی اور دہشتگردی کی صورت میں نکلا۔ ملوکیت کی بدنصیبی ہی یہ ہے کہ اس میں لیا گیا فیصلہ بہتری کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ وقتی کامیابیوں پر قصیدہ خوانی بھلے جتنی بھی کر لی جائے، بالآخر حساب کتاب کیا جائے تو سودا خسارے کا ہی نکلے گا۔ درباری ملا اس دور میں بھی ملوکیت کا دم بھرتے تھے، یہ آج بھی قصیدہ گوئی پر ہی پل رہے ہیں۔ اور کم فہم اتنے ہیں کہ اپنا باطن خود ہی سامنے بھی لے آتے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ مفتی طارق مسعود نے بغیر مناظرے کے ہی انجینیئر محمد علی مرزا کو درست ثابت کر دیا تو بے جا نہ ہوگا۔