وزیراعظم نے جواب دیا کہ عدالت جو پوچھے گی اس کا جواب دوں گا۔اس موقع پر صحافی نے یہ بھی سوال کیا کہ خان صاحب کیا سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔کیا آپ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔وزیراعظم نے صحافی کے سوال پر خاموشی اختیار کیے رکھی اور بغیر کوئی جواب دئیے چلے گئے۔
تاہم وفاقی وزیر فواد چوہدری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’نوازشریف کو بلائیں نہ‘۔
https://twitter.com/MalikAliiRaza/status/1458333284711247874
دوسری جانب وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں کہا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو میں دھرنے میں موجود تھا لیکن واقعہ کی اطلاع ملتے ہی میں تو فوری طور پر پشاور پہنچا اور بچوں کے والدین سے ملاقات کی۔عدالت نے استفسار کیا کہ جی بتائیں خان صاحب اب تک کیا کارروائی کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس دردناک تھا، سانحہ کی رات ہم نے پارٹی کا اجلاس بلایا تھا۔ 2014میں جب سانحہ اے پی ایس ہوا تو خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت تھی۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران آئین کی کتاب اٹھا لی اور کہا کہ یہ آئین کی کتاب ہے جو ہر شہری کو سیکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ۔مشرف دور میں مخالفت کی تھی کہ امریکا کی جنگ میں نہیں کودنا چاہئیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ عدالت حکم کرے ہم ایکشن لیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی کی جائے، والدین کو تسلی دینا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلوانے کے لیے کیا کیا ؟
وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ ہم اس وقت مرکز میں نہیں تھے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ تو اقتدار میں ہیں ، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آپ نے کیا کیا ؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کررہے ہیں جن کو مجرم کہا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کا موقع دیں، ایک ایک کر کے وضاحت کرتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ آپ نے آگے کے لیے کیا احکامات کیے؟۔وزیراعظم نے روسٹرم پر مزید کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں،ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں۔عدالت حکم کرے ہم ایکشن لیں گے ۔