رنگ و جمال کا سحر طراز شاعر تنویر نقوی جس نے لازوال گیت لکھے

تنویر نقوی تقسیم کے فوراً بعد پاکستان چلے آئے اور پاکستان کی پہلی فلم 'تیری یاد' کے گیت لکھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایک بار انہوں نے ہدایت کار کے آصف کے اصرار پر مختصر وقت کے لیے پھر بمبئی کا رخ کیا اور ہندوستانی سنیما کے سنگ میل 'مغل اعظم' کے لیے دو گیت بھی لکھے۔ ساحر لدھیانوی کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں تنویر نقوی ان کے ہم پلہ ہیں'۔

06:15 PM, 10 Nov, 2023

طاہر اصغر

صبح دم کی مہکتی ہوئی آہستہ رو روشنی کی لہروں اور دھیرے دھیرے چمکتی ہوئی دوپہر میں خاموش ایستادہ درختوں کے تلے خاموش سائے، اور پھر ڈھلتی ہوئی شام جو ایک رات میں گھل جاتی ہے، کبھی سیاہ تو کبھی روپہلی چاند کی فسوں گر چاندنی میں تمام عالم نہایا ہوا اور محبت کا وفور پھوٹتا ہے تو ایک گیت لبوں پہ مچلتا ہے۔ سبز پتوں پہ شبنم کے قطرے تھرکتے ہوئے، زندگی کے دھڑکتے لمحوں کے پہلو میں کسی یاد کا کوئی افسانہ کسی ناتمام محبت کا کوئی جادو سا فضا میں اترا ہوا۔ گیت کچھ ایسی ہی تصویر بناتے ہیں اور ان کے رنگ گیت نگار کی دور رس نگاہ میں چمکتے اور جلتے بجھتے خیالوں کی دنیا کی وہ زبان ہے جو حرف و صوت کو نئے معنی دے کر ایک نئے جہاں میں لے جاتے ہیں۔ مکالمہ، لہجہ اور خاموشی کے اشارے گیت میں بیان کرنے والا شاعر اپنی زباں سے ہمیں وہ سب سناتا ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں کہیں موجود تو ہوتا ہے مگر آشکار نہیں ہوا ہوتا۔

ہم اداس ہوتے ہوں تو گیت گاتے ہیں۔ دل و دماغ میں کئی گیت ایک البم کی مانند موجود ہیں، کون سا گیت سنو گی۔۔ کس کا گیت سناؤں۔۔ گیت ایک آواز یا پکار ہی نہیں، ایک دنیا ہے جس کے سب رنگ نرالے ہوتے ہیں۔ ہمیں اسی دنیا کے ایک سحر طراز شاعر سے ملاقات کرنا ہے۔

یہ 1970 کی دہائی کا زمانہ تھا جب ایک قابل گیت نگار اور ایک سینیئر اداکار ایورنیو سٹوڈیو میں مصروف عمل تھے۔ اداکار اپنی آنے والی فلم کی کہانی سنا رہا تھا جس میں وہ دو جواں سال بیٹیوں کا باپ ہے، اتنے میں ایک دلکش خاتون قریب سے بڑی بے اعتنائی اور ادا کے ساتھ گزرتی ہے۔ 'یہ کون تھی؟' شاعر نے پوچھا اور تب اس کے ذہن میں فلم کے لیے یہ گیت ترتیب پایا؛ 'کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، کیوں تم کو دیکھتے ہی دل کھو گیا ہمارا'۔ یہ شاعر تنویر نقوی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا جس نے اسی دم یہ بول لکھے تھے۔ سینیئر اداکار طالش تھے اور خوبرو اداکارہ آسیہ تھی۔ گیت فلم 'گھرانہ' کے لیے لکھا گیا تھا۔

تنویر نقوی جنہیں 'شاہ جی' کے لقب سے لکھا اور پکارا جاتا تھا، لفظوں میں سحر پھونکنے کے استاد تھے۔ 1919 میں ایران کے شہر ابادان میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سید خورشید نقوی تھا مگر بعد ازاں وہ تنویر نقوی کہلائے۔ 19 سال کی عمر میں بطور شاعر ان کے سفر کا آغاز ہوا۔ اول اول انہوں نے لاہور ہی میں فلموں کے گیت لکھنا شروع کئے اور جب ان کے گیت زبان زد خاص و عام ہوئے تو ہدایت کار اے آر کاردار نے انہیں بمبئی آنے کی دعوت دی۔

انہیں پہلا فلمی شاعر سمجھا جاتا ہے جس نے فلمی گیتوں میں ہندی کے بجائے اردو کا چلن عام کیا تھا۔ وہ فلمی کردار کے بطن میں داخل ہو کر لفظ تخلیق کیا کرتے تھے۔ پہلے گیت ہندی میں لکھے جا رہے تھے، جیسے چنچل بالک، مورے راجا اور تورا جیا۔ لیکن شاہ جی نے سب کچھ بدل دیا۔ تقسیم سے پہلے بمبئی کی فلم نگری میں وہ بے حد مصروف تھے۔ بالی وڈ کے خدوخال سنور رہے تھے اور ستارے زمین پر اتر چکے تھے۔ پردہ سیمیں پر شاندار کہانیوں، کرداروں اور گیتوں کی سحر انگیز آوازیں روزمرہ زندگی کا حصہ بن رہی تھیں۔ شاہ جی کے بمبئی میں قیام کے دوران لیلیٰ مجنوں (1945)، انمول گھڑی (1946) اور جگنو (1947) وہ یادگار فلمیں ہیں جنہوں نے انہیں اپنے ہم عصروں میں ایک الگ پہچان دی۔ وہاں اداکارعلاؤ الدین اور گلوکار محمد رفیع تھے اور موسیقار اعظم نوشاد علی تھے جنہوں نے 'انمول گھڑی' کی موسیقی دی تھی۔

تنویر نقوی تقسیم کے فوراً بعد پاکستان چلے آئے اور پاکستان کی پہلی فلم 'تیری یاد' کے گیت لکھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایک بار انہوں نے ہدایت کار کے آصف کے اصرار پر مختصر وقت کے لیے پھر بمبئی کا رخ کیا اور ہندوستانی سنیما کے سنگ میل 'مغل اعظم' کے لیے دو گیت بھی لکھے۔ لیکن اس فلم کے موسیقار نوشاد علی شاعر شکیل بدایونی کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھتے تھے اور اس طرح کے آصف نے تنویر نقوی کو دوسری فلموں کے لیے کام دے دیا۔ جو گیت مغل اعظم کے لیے شاہ جی نے لکھے تھے، ان میں سے 'کہاں تک سنو گے' مغل اعظم کے پاکستانی روپ فلم 'انار کلی' میں شامل ہوا۔ جبکہ فلم 'شیریں فرہاد' کے لیے مدھوبالا پر فلمایا گیا گیت جسے لتا منگیشکر نے گایا تھا 'گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ' بھی تنویر نقوی کے فن کا کمال تھا۔

تنویر نقوی نے فارسی لفظوں کو بھی اپنے گیتوں میں بخوبی شامل کیا۔ فلم عذرا (1962) کے لیے ان کے گیت 'جانِ بہاراں رشک چمن' کو کون بھول سکتا ہے؟ موسیقار ماسٹر عنایت حسین اس فلم میں ایسا گیت چاہتے تھے جو فارسی بولنے والوں کی دنیا کے لیے موزوں کیا گیا ہو۔ فلم میں شہزادہ وامق شہزادی عذرا کی تعریف کر رہا ہے۔ تب تنویر نقوی نے لفظ 'سیمیں بدن' تجویز کیا اور ماسٹر عنایت حسین حیران رہ گئے۔ یوں سلیم رضا کی آواز میں ہمیشہ کے لیے ایک یادگار گیت ظہور پذیر ہوا۔ اسی طرح خواجہ خورشید انور نعت 'صلو علیہ و آلہ' کو گیت میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے شاہ جی سے درخواست کی اور شاہ جی کے دل نے پکارا؛ 'جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی، تو جہاں تھا خواب و خیال ہی'۔

جہاں ان کے ہم عصر گیت نگار قتیل شفائی اور احمد راہی ان کے کام کے بہت معترف تھے وہیں بالی وڈ کے قد آور شاعر ساحر لدھیانوی کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں تنویر نقوی ان کے ہم پلہ ہیں'۔ فلم گمنام (1954) کے لیے ان کا گیت 'تجھے پیار آئے کسی پہ کب، تیرا جو ستم ہے وہ بے سبب' اور فلم پائل کی جھنکار (1966) کے لیے 'میرے دل کے تار بجے بار بار' ان کے بہترین کام میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سیاسی صورت حال کو بھی شاہ جی اپنے گیتوں میں خوبصورتی سے پرو رہے تھے۔ فلم 'گمنام' کا گیت 'بھاگ یہاں سے بھاگ' ان کے حالات حاضرہ پر گہری نگاہ اور بدعنوان عناصر کے اثر و نفوذ کے بارے میں حیران کن مشاہدے کو ظاہر کرتا ہے۔ فلم فرشتہ (1961) کا گیت 'وہ زمانہ ضرور آئے گا' ہمیں ایک اچھے زمانے کی نوید سناتا ہے۔

تنویر نقوی کے آخری زمانے کے چند یادگار گیتوں میں 'یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم' گائیک مجیب عالم، فلم افسانہ (1970)، 'چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے' گائیکہ نورجہاں، فلم دوستی (1971) اور فلم دنیا (1972) کے لیے 'گا میرے دیوانے دل' گائیک مہدی حسن شامل ہیں۔

اردو شعریت پر دسترس کے ساتھ ساتھ شاہ جی پنجابی زبان کے ساتھ بھی اپنے گیتوں میں بہت عمدہ سبھاؤ رکھتے تھے۔ ان کے پنجابی گیت دیکھیں؛ 'چل چلیے دنیا دی اوس نکرے'، 'جدوں ہولی جیہی لینا میرا ناں میں تھاں مر جانی آں'، 'چنی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں'، 'ماہی میریا روند نہ ماریں میں دا لایا جند جان دا'، اور بے شمار دیگر۔

تنویر نقوی نے میڈم نورجہاں کی بڑی بہن ایدن بائی کے ساتھ شادی کی تھی۔ یہ نباہ 14 برس تک رہا اور فلم انڈسٹری میں اس جوڑے کو بہت پیار کیا گیا۔ ہدایت کار ریاض شاہد کے ساتھ تنویر نقوی کا دوستی کی حد تک لگاؤ تھا۔ 'شہید'، 'خاموش رہو'، 'نظام لوہار' اور 'جواب دو' جیسی فلموں کے گیت شاہ جی کے قلم کا اعجاز ہیں۔ ان دونوں کی فلم 'بہشت' نامکمل رہی کیونکہ 1972 میں ریاض شاہد کا انتقال ہو گیا تھا جبکہ شاہ جی اپنے دوست کی موت سے بے خبر تھے۔ ٹھیک ایک ماہ بعد انہوں نے بھی اسی اسپتال میں اپنی آخری سانس لی جہاں ریاض شاہد راہی عدم ہوئے تھے۔

وہ سخن کے تمام رنگ اپنے گیتوں میں سجانے کا فن جانتا تھا۔ دنیا اس کے گیت ہمیشہ گنگناتی رہے گی کہ ایسے روشن ستارے صرف ایک بار ہی فن کی دنیا میں روشنی بکھیرنے کے لیے طلوع ہوتے ہیں۔

مزیدخبریں