صحافت کی آزادی کے لئے صرف ایک دن کا احتجاج؟

02:57 PM, 10 Oct, 2018

کبیر علوی
9 اکتوبر کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کی کال پر پاکستان بھر میں صحافی تنظیموں اور مختلف الخیال یونینز کی جانب سے احتجاج منعقد کیے گئے۔ کراچی کے مقامی پریس کلب پربھی کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کی جانب سے ریلی نکالی گئی جو اپنے مقرّرہ راستوں سے ہوتی ہوئی سندھ گورنر ہاؤس تک پہنچی جہاں رہنماؤں نے خطاب کیا۔

تھوڑی ہی دیر میں احتجاج ختم ہوا اور دن ڈھلنے کے ساتھ صرف ایک سوال رہ گیا کہ کیا ایک احتجاج ہو جانے سے صحافت آزاد ہو جائے گی؟

معروف صحافی و دانشور غازی صلاح الدین نے اپنے حالیہ دنوں میں ہونے والے انٹرویو میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ آمر ضیا الحق کے دور کے مقابلے میں اس وقت صحافت کی حالت زیادہ بری ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ضیا دور میں سنسرشپ تھی۔ پری پبلی کیشن سنسرشپ بھی تھی۔ اخبار چھاپنے سے پہلے ان کو دکھانا پڑتا تھا کہ ہم کیا چھاپ رہے ہیں۔ لیکن کچھ قاعدے طے تھے۔ ہمیں پتہ تھا کہ کیا کریں گے تو کیا سزا ملے گی۔ کیا نہیں کریں گے تو بچ جائیں گے۔ اس وقت کوئی قاعدے قوانین نہیں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون کس بات پر آپ سے ناراض ہو جائے گا۔"

پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں صحافی ہونے کے باوجود صرف چند احتجاج میں شرکت کرتے ہیں۔ اس افسوسناک امر کی وجہ یہ بھی ہے کہ پی ایف یو جے اس وقت تین دھڑوں میں تقسیم ہے جس کے صرف ایک گروہ نے احتجاج کی کال دی تھی۔

کراچی میں تقریباً چار کے یو جے فعال ہیں جن میں سے صرف ایک نے ملک کے سب سے بڑے شہرمیں احتجاج کیا۔



احتجاج کے دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ زیادہ تر نعرے، تقاریر، اور شرکاء کی جانب سے اٹھائے جانے والے پلے کارڈز میں بھی تنخواہوں کی عدم ادائیگی، اور اخباری کارکنان کی چھانٹیوں کی بات ہو رہی تھی۔ گویا صحافت پر قدغن کی بہت کم بات ہوئی۔

کچھ سر پھروں نے دھیمی آواز میں عسکری اداروں کے خلاف نعرے بلند بھی کیے مگر انہیں لا محالہ چپ کروا دیا گیا۔ خوف تو مکمل طور پر ظاہر تھا بس اس پر بات کرنے کو شاید کوئی تیار نہیں۔

کے یو جے کے صدر جناب فہیم صدیقی نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیم نے تمام حلقوں اور مختلف الخیال دھڑوں کو دعوت تھی اور وہ احتجاج میں شریک بھی ہوئے۔

"لیکن یقیناً یہ بات ماننی چاہیے کہ ایک ملک گیر تحریک شروع ہو۔"

اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ شاید احتجاج کا ایجنڈا ریلی میں تبدیل کر دیا گیا تھا، فہیم کا کہنا تھا کہ ان کے تین نقاط تھے جس میں میڈیا کارکنان کو نوکری سے نکالنا، تنخواہوں کی عدم ادائیگی، اور صحافت پرجاری سنسرشپ شامل تھے۔



"کراچی میں ہم پی ایف یو جے کے منتظر ہیں کہ وہ اگلی کال کب دیں اور ہم یہاں احتجاج کریں۔ تحریک کے حوالے سے کراچی کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ 1978 کی تحریک اور مشرف کے دور میں یہاں تحریک نے بہت زور پکڑا تھا اور اس کے نتائج بھی مثبت نکلے تھے۔"

فہیم صاحب کا مزید کہنا تھا کہ 2008 میں صحافیوں کی تحریک کے دوران سب سے زیادہ گرفتاریاں بھی اسی شہر سے صحافیوں نے دیں۔

دن بھر کے احتجاج کے بعد ایک خبر یہ سننے میں آئی کہ تمام میڈیا مالکان نے افواجِ پاکستان کے ترجمان سے ملاقات کی۔ ان کی گروپ فوٹو واٹس ایپ اور سوشل میڈیا میں گردش کرتی رہی اور خوب چرچے بھی ہوئے۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب انسانی حقوق اور چند صحافی تنظیموں نے فوج پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ صحافت پر قدغن لگا رہے ہیں جس سے ملک کے حقائق عوام کےسامنے نہیں۔
مزیدخبریں