ترکی نے یہ حملہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اس خطے سے امریکی فوجوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد کیا ہے۔ انقرہ کا کہنا ہے کہ اس نے سرحدی علاقے میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے تاہم کردوں کا کہنا ہے کہ حملے میں شہری علاقوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ ترکی کی فوج نے شمالی شام میں اپنی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ کیونکہ، ترکی اِس علاقے میں ایک محفوظ زون بنانا چاہتا ہے جہاں کرد ملیشیا کا وجود نہ ہو اور جہاں ترکی آنے والے تقریباً 36 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو رکھا جائے۔
صدر اردوان نے کرد ملیشیا کے خلاف اس عسکری مشن کو 'آپریشن امن بہار‘ کا نام دیا تھا۔ اس پیغام کے کچھ ہی دیر بعد ترک فضائیہ نے شمالی شام میں شدید بمباری شروع کر دی تھی۔ بمباری کے بعد بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ترکی فوج کے زمینی دستے شمالی شام میں داخل ہو گئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کی جانب سے کُرد پیش مرگہ فورسز پر شمال مشرقی شام میں کیے جانے والے حملے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک ’غلط اقدام‘ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ پر یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے چند روز قبل شمالی شام سے واشنگٹن کے فوجی دستوں کے انخلا کے فیصلے کے ساتھ اس ترک فوجی آپریشن کے لیے راہ ہموار کی ہے۔
ترک حملے پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ترکی کے اپنی سلامتی سے متعلق تحفظات حقیقی ہیں۔
واضح رہے کہ شام میں دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے میں کرد پیش مرگہ فورسز امریکہ کی اہم اتحادی رہی ہیں۔
ترکی کے اس اقدام کی عالمی برادری کی جانب سے بھی مذمت کی جا رہی ہے۔ یورپی یونین نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ حملہ بند کرے۔ سعودی عرب نے بھی ترکی کے فوجی آپریشن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے کی سلامتی اور جہادیوں کے خلاف جنگ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔آسٹریلوی وزیراعظم نے بھی ترک حملے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے داعش کے خلاف عالمی جنگ متاثر ہو گی۔
انقرہ حکومت شامی کردوں کو ترک کردوں کا اتحادی اور دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ ترک صدر اردوان نے 'آپریشن امن بہار‘ کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ شامی کردوں کی تنظیم 'سیریئن ڈیموکریٹک فورسز‘ یا 'ایس ڈی ایف‘ کے خلاف کارروائی اس لیے ناگزیر ہے کیوں کہ وہ ترکی کے خلاف حملے کرنے والے گرد دہشت گروہوں کے ساتھی ہیں۔
انقرہ حکومت کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ عسکری کارروائی کے بعد شامی سرحد کے اندر 'محفوظ زون‘ کا قیام ممکن ہو جائے گا جس کے بعد ترکی میں موجود لاکھوں شامی مہاجرین کو شامی سرزمین پر دوبارہ آباد کیا جا سکے گا۔
کرد باغیوں نے ترک حملے کے خلاف سخت مزاحمت کا اعلان کیا ہے، عالمی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کرد باغیوں اور ترک افواج کے درمیان تصادم بھی ہوا ہے۔
خیال رہے کہ کرد ملیشیا آزاد ملک کے قیام کیلئے سرگرم ہے، عراق میں کردستان کے نام سے ایک خودمختار علاقہ کردوں کو دیا گیا ہے تاہم وہ شام اور ترکی کے کچھ علاقوں کو بھی کردستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ترکی کرد ملیشیا کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔