وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان بننے کے وقت میرا ماننا تھا کہ چونکہ ہندوستان کے مسلمان خود ایک اقلیت کی حیثیت میں رہ کر دیکھ چکے ہیں تو پاکستان میں وہ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ تقسیم کے ہنگاموں میں بھی دلتوں کے ساتھ وہی کچھ جاری رہا جو راست اقدام کے موقع پر شروع کیا گیا تھا لیکن حکومتِ پاکستان نے اس کا ازالہ تو دور اس کو تسلیم تک کرنے سے انکار جاری رکھا۔
منڈل کے مطابق 1947 سے 1950 کے دوران تین سال کے عرصے میں کئی واقعات ایسے ہوئے جن میں دلتوں پر مسلمانوں کی جانب سے پرتشدد عمل روا رکھا گیا، ان کے گاؤں لوٹے گئے، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں، لیکن حکومت کی جانب سے اس کا ازالہ نہ کیا گیا، باوجود اس کے کہ بار بار توجہ اس طرف مبذول کروائی گئی۔ ان کے خط کے چند اہم نکات یہاں نقل کیے جا رہے ہیں۔
محترم وزیراعظم،
آپ یاد کریں کہ وقتاً فوقتاً میں اچھوت ذاتوں کے ساتھ ہونے والی حق تلفیاں آپ کے علم میں لاتا رہا۔ میں نے بارہا مشرقی بنگال کی نااہل انتظامیہ کی ساخت بارے آپ کو مطلع کیا۔ میں نے پولیس انتظامیہ کے خلاف فاش الزامات لگائے میں پولیس کے وحشیانہ مظالم کے واقعات آپ کے علم میں لایا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ مشرقی بنگال کی حکومت خاص طور پر پولیس انتظامیہ اور مسلم لیگی قائدین کا ایک گروہ ہندو دشمن پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
لیگی لیڈران کے ارادوں کے بارے میں میرے شکوک اس وقت یقین میں بدل گئے جب میں نے مولانا اکرم خان، صوبائی مسلم لیگ کے صدر کا ایڈیٹوریل تبصرہ ”محمدی“ نامی ایک جریدے کے بیساکھ ایشو میں پڑھا، ڈاکٹر اے ایم مالک، پاکستان کے اقلیتی معاملات کے وزیر کے پہلے ریڈیو خطاب، جس میں انہوں نے کہا تھا ”حضرت محمدﷺ نے بھی حتیٰ کہ عرب میں یہودیوں کو مذہبی آزادی دی“ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا اکرم خان نے کہا”ڈاکٹر مالک نے بھی کیا ہی اچھا کیا ہوتا، اگر انہوں نے اپنی تقریر میں عرب کے یہودیوں کے بارے میں کوئی حوالہ نہ دیا ہوتا۔“ یہ سچ ہے کہ حضرت محمدﷺ نے عرب میں یہودیوں کو مذہبی آزادی مرحمت فرمائی، لیکن یہ تاریخ کا پہلا باب تھا، آخری باب میں حضرت محمدﷺ نے قطعی ہدایات دیں جو کچھ یوں ہیں:”تمام یہودیوں کو عرب سے نکال باہر کرو۔“ ایک ایسا شخص جو مسلم کمیونٹی کی سیاسی، سماجی اور روحانی زندگی میں بہت اعلیٰ رتبہ رکھتا ہو کے اس ایڈیٹوریل تبصرے کے باوجود بھی میں نے کچھ توقعات وابستہ رکھیں کہ نورالامین وزارت اتنی غیر مخلص نہیں ہوگی۔ لیکن میری یہ توقعات اس وقت مکمل طور پر بکھر گئیں جب مسٹر نورالامین نے دہلی سمجھوتہ کے حوالے سے جو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اقلیتوں کے دل میں اعتماد بحال کرنے کے لئے ان کے نمائندوں میں سے ایک کو حکومت مشرقی ومغربی بنگال کی وزارت میں لیا جائے گا، ڈی این براری کو اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے بطور وزیر چنا۔
پولیس اور افواج کے معصوم ہندوﺅں خاص طور پر ڈسٹرکٹ سلہٹ، حبیب گڑھ کے اچھوت ذاتوں پر روارکھے جانے والے مظالم تفصیل کے متقاضی ہیں۔ معصوم مردوں اور عورتوں پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ چند خواتین کی عصمت دری کی گئی، پولیس اور مقامی مسلمانوں نے گھروں پر دھاوا بولا اور املاک لوٹ لیں۔ علاقے میں فوجی ناکے لگائے گئے۔ فوج نے نہ صرف ان لوگوں پر جبر کیا اور ان ہندو گھروں کا سامان بزور اٹھالے گئے بلکہ ہندوﺅں کو مجبور کیا کہ وہ رات کو فوجیوں کی نفسانی خواہشات پورا کرنے کے لئے اپنی خواتین کیمپ میں بھیجیں۔ یہ حقائق بھی میں آپ کے علم میں لایا۔ آپ نے مجھے اس معاملے پر رپورٹ کی یقین دہانی کروائی لیکن بدقسمتی سے کوئی رپورٹ دستیاب نہ ہوئی۔
پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ:
مجھے کہنا چاہئے کہ موجودہ صورتحال نہ صرف غیر اطمینان بخش ہے بلکہ قطعاً مایوسانہ ہے اور یہ کہ مستقبل مکمل طور پر تاریک اور ہولناک ہے۔ مشرقی بنگال میں ہندوﺅں کا اعتماد ذرا سا بھی بحال نہیں ہوا۔ حکومت مشرقی بنگال اور مسلم لیگ نے یکساں طور پر معاہدہ کے ساتھ محض ردی کے کاغذ کا برتاﺅ کیا ہے۔
مشرقی بنگال میں آج کیا حالات ہیں؟ دیش کے بٹوارے سے اب تک تقریباً پچاس لاکھ ہندو چھوڑ چھاڑ کر جا چکے ہیں۔ گذشتہ فروری کے فسادات کے علاوہ ہندوﺅں کی وسیع پیمانے پر نقل مکانی کی کئی اور وجوہات ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے ہندو وکلا، طبیبوں، دکانداروں، تاجروں اور بیوپاریوں کے بائیکاٹ نے ہندوﺅں کو اپنے ذریعہ معاش کی تلاش کے لئے مغربی بنگال کی جانب نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ہندو مکانات پر بڑی تعداد میں قبضہ وہ بھی بغیر کسی قانونی طریقے پر عمل کئے اور مالکان کو کرایہ کی عدم ادائیگی، جو بھی کہہ لیں، نے انہیں ہندوستانی پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔
نوجوان ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی
مشرقی پاکستان کے مسئلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اب مجھے مغربی پاکستان خاص طور پر سندھ کا حوالہ دینے دیجئے۔ بٹوارے کے بعد مغربی پنجاب میں تقریباً ایک لاکھ اچھوت ذات لوگ تھے۔ شاید یہ نوٹ کیا گیا ہو کہ ان کی خاصی بڑی تعداد کو اسلام قبول کرا لیا گیا۔ صاحبان اقتدار کو بار بار کی عذرداشت (Petitions) کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی اغواء کردہ ایک درجن اچھوت ذات لڑکیوں میں سے صرف چار کو بازیاب کرایا جا سکا ہے۔ ان لڑکیوں کے ناموں کے ساتھ ان کے اغوا کنندگان کے نام بھی حکومت کو دیے جاچکے ہیں۔ مغویان لڑکیوں کی بازیابی کے انچارج افیسر کی طرف سے دیے گئے حالیہ آخری جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ”اس کا کام ہندو لڑکیوں کی بازیابی تھا اور”اچھوت“ (Scheduled Castes)ہندو نہیں۔“ ہندوﺅں کی محدود تعداد کی حالت زار جو ابھی تک سندھ اور کراچی، پاکستان کے درالخلافہ میں رہ رہی ہے، انتہائی تاسف انگیز ہے۔ مجھے کراچی اور سندھ کے 363 ایسے ہندو مندروں اور گردواروں کی ایک فہرست (جوہرگز مکمل نہیں ہے) موصول ہو چکی ہے جو ابھی تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں۔
’ہندوؤں کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں‘
جہاں تک ہندوﺅں کا معاملہ ہے، پاکستان کی عمومی تصویر کی اب تلخیص کرتے ہوئے، میں یہ کہنے میں غلط نہیں ہوں گا کہ پاکستان کے ہندوﺅں کو ان کے اپنے گھروں میں تمام مضمرات کے ساتھ بے وطن(Stateless)کردیا گیا ہے۔ ان کا اس کے علاوہ اور کوئی قصور نہیں کہ وہ ہندو مذہب کے پیروکار ہیں۔ مسلم لیگی قائدین کی طرف سے بار بار ایسے اعلانات کرنا کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے اور ہوگی۔ اسلام کو تمام دنیوی برائیوں کے لئے بطور اکسیر علاج کے تجویز کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری اور سوشلزم کی بے موازنہ جدلیات میں، آپ نشاط آور اسلامی مساوات اور بھائی چارے کا جمہوری امتزاج پیش کرتے ہیں۔ شریعت کے اس پرشکوہ بندوبست میں، مسلمان اکیلے ہی حکمران ہوں گے جبکہ ہندو اور دوسری اقلیتیں ذمی، جو کہ قیمتاً تحفظ کی حقدار ہوں گی، اور جناب وزیراعظم آپ دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں کہ وہ قیمت کیا ہے۔
پاکستان میں مسلم لیگ کے مخالف مسلمان بھی محفوظ نہیں
اور ان مسلمانوں بارے میں کیا کہوں جو مسلم لیگ حکمرانوں اور ان کی کرپٹ اور نااہل بیوروکریسی کے دلکش حلقے سے باہر ہیں۔ پاکستان میں ایسی کوئی شے مشکل سے ہی ہے جسے شہری آزادی کہا جا سکے۔ مثال کے طور پر، خان عبدالغفار خان، جس سے زیادہ پارسا کسی مسلمان نے کئی برسوں سے اس زمین پر قدم نہیں رکھا اور ان کے جواں مرد محب وطن بھائی ڈاکٹر خان صاحب کا مقدر، قبل ازیں پاکستان کی شمال مغربی اور مشرقی پٹی کے لیگی لیڈران کی ایک بڑی تعداد کو بھی بغیر کسی مقدمہ کے حراست میں رکھا گیا۔ حسین شہید سہروردی جو بنگال میں لیگ کی بڑے پیمانے پر فتح کے حقدار ہیں، عملی طور پر پاکستانی قیدی ہیں، جنہیں اجازت سے نقل وحرکت کرنی پڑتی ہے اور احکامات کے تابع لب کشائی۔ مسٹر فضل الحق جن کی بنگال کے بڑے بوڑھے کے طور پر دل وجان سے تکریم کی جاتی ہے، جو اس وقت مشہور قرار داد لاہور کے مصنف ہیں، نظام عدل کے ڈھاکہ ہائی کورٹ کی حدود میں اپنی تنہا لائن Furrow میں ہل چلا رہے ہیں اور نام نہاد اسلامی منصوبہ بندی اتنی ہی بے رحم ہے جتنی کہ کامل مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے بارے عمومی طور پر جتنا کم کہا جائے اتنا بہتر ہے ان کے ساتھ آزاد ریاست کی خود مختار ومقتدر اکائیوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس انہیں ملا کیا؟ مشرقی بنگال پاکستان کے مغربی حصے کی کالونی میں بدل گیا، حالانکہ اس کی مشمولہ آبادی پاکستان کے تمام یونٹوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی۔ یہ کراچی کا ایک کمزور وغیر موثر ماتحت تھا جو آخر الذکر کے ارشادات کی تعمیل اور احکامات کی بجا آوری کررہا تھا۔ مشرقی بنگال کے مسلمان اپنی ولولہ انگیزی میں، رزق چاہتے تھے اس کے برعکس انہیں اسلامی ریاست اور شریعت کے پراسرار عمل سے سندھ اور پنجاب کے بنجر ریگستانوں سے پتھر ملے۔
آپ نے وزیراعظم اور پارلیمانی پارٹی کے قائد کی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے مجھے ایک بیان جاری کرنے کو کہا، جو میں نے گذشتہ 8 ستمبر کو کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں غلط بیانیوں اور آدھی سچائیوں پر مشتمل کوئی بیان جاری کرنے پر رضامند نہ تھا، جو کہ غلط بیانیوں سے زیادہ بدتر تھے۔ میرے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ میں آپ کی درخواست رد کرتا جب تک کہ میں آپ کے ساتھ، آپ کی قیادت میں بطور وزیر کام کررہا تھا۔ لیکن میں مزید اپنے ضمیر پر جھوٹے ڈھونگ اور غلط بیانی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ اور میں نے آپ کی وزارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو میں یہیں آپ کے حوالے کر رہا ہوں، مجھے اُمید ہے آپ بغیر کسی تاخیر کے منظور کر لیں گے۔
8 اکتوبر 2020 کو بی بی سی کے لئے اپنے ایک مضمون میں ثقلین امام غزل آصف کے مقالے سے اقتباس کرتے ہیں جو کہ پاکستان کی نیشنل آرکائیوز سے حاصل ہونے والی دستاویزات کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ منڈل کے بیانات کو ایک ’دھوکہ‘ کہتے ہوئے انھیں ’جھوٹا، غدار اور بزدل‘ کہا گیا۔
اُن کے بیٹے جگیدش چندرا منڈل نے پروفیسر انیربان بندھیوپادھیائے کو بتایا تھا کہ جب ان کے والد کراچی میں رہتے تھے تو وزیر ہوتے ہوئے بھی انھیں ہر معاملے سے الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ ’انھوں نے پاکستان میں جناح پر بھروسہ کرتے ہوئے دلتوں کے بہتر مستقبل کی امید پر انڈیا میں اپنا جو کچھ بھی تھا، سب کچھ چھوڑ دیا تھا، لیکن جناح کے بعد اسی پاکستان میں انھیں سیاسی اچھوت بنا دیا گیا تھا۔‘
1950 میں منڈل مستعفی ہو کر واپس بھارتی بنگال منتقل ہو گئے لیکن یہاں بھی انہیں پاکستان سے واپس آنے کی وجہ سے ایک غدار ہی قرار دیا گیا۔ منڈل نے قائد کے ساتھ اپنا وعدہ نبھانے کی قیمت دونوں طرف غدار قرار دیے جا کر ادا کی، اور ہندوستان میں اپنی زندگی کے آخری 18 سال انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گزارے۔ بار بار انتخابات ہارتے رہے اور جب جیتنے کے قریب پہنچے تو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ لیکن ان کے بیٹے کے نزدیک یہ واقعہ انتہائی حیران کن تھا کیونکہ وہ گھر سے بالکل ٹھیک ٹھاک نکلے تھے، دریا پار کر کے ایک جلسے میں پہنچنا تھا کہ دریا کے بیچ میں انہیں دل کا دورہ پڑا اور اس واقعے کا عینی شاہد صرف ایک ملاح تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شاید انہیں زہر دیا گیا تھا لیکن ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہ کیا گیا، اور یوں یہ راز ان کے ساتھ ہی چلا گیا۔
منڈل کے ایک واقف وکیل کہتے ہیں کہ انھوں نے منڈل کو ڈھلتی عمر کے دنوں میں ایک بار یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ’میں نے محسوس کیا ہے کہ زندہ درگور کیا جانا کیسا ہوتا ہے۔‘
پاکستان میں آج بھی اقلیتوں کے حالات مایوس کن ہیں، جبری مذہب تبدیلی آج بھی عام ہے، اسلامی ریاست کی طرح ’ریاستِ مدینہ‘ کے نام پر اقلیتوں کا استحصال آج بھی جاری ہے۔ ملک میں آج بھی مندروں پر مسلمانوں کے قبضے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ ہم نے قائد کے سب وعدوں سے انحراف کیا، اور ان وعدوں پر یقین کر کے یہاں آنے والے سب لوگوں کو مایوس کیا، تو بے جا نہ ہوگا۔