کچھ وقت گزرنے کے بعد جب ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں سنائی دینا شروع ہوئیں تو میں باہر آیا اور جیسے ہی دفتر کی چار دیواری سے باہر آیا تو فضا میں ہر طرف بارود کی بو، زمین پر کہیں لاشیں تھیں تو کہیں انسانوں کے سر تو کہیں بدن کے دیگر اعضا جوہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر تقریباً تین منٹ بعد میں دھڑام سے زمین پر گر گیا اور جب دو گھنٹے بعد میری آنکھیں کھلیں تو میں اسپتال میں پڑا تھا۔ کچھ وقت بعد جب گھر والے مجھے گھر لے آئے تو میں بات نہیں کر پا رہا تھا اور نہ ہی میرے منہ سے کوئی بات نکل رہی تھی۔
رات کو ڈاکٹر کے لکھی ہوئی نیند کی دوا لی اور جیسے ہی میں سوتا تھا تو نیند میں دوبارہ وہی مناظر میرے سامنے آ جاتے تھے اور میں دوبارہ سے اُٹھ جاتا تھا۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہو جاتی تھی اور میں زور زور سے رونے لگتا تھا۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔ مقامی اتائی ڈاکٹروں کے بتائی ہوئی نیند اور دماغ کو پرسکون رکھنے کی دوائیں لیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری طبیعت میں مزید بے چینی پیدا ہوتی رہی۔ تب میں نے خود کو دلاسہ دے کر نفسیاتی امور کے ماہر سے مشاورت اور باقاعدہ علاج شروع کیا۔
یہ کہانی فراز علی (فرضی نام) کی ہے جن کا تعلق پاکستان کے سابقہ فاٹا سے ہے اور وہ 2010 کے ایک بم دھماکے میں زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے تھے جو ان کے دفتر سے کچھ ہی فاصلے پر ہوا تھا۔ فراز کے مطابق انھوں نے پشاور جا کر ایک ماہر نفسیات سے علاج شروع کیا اور دو سال علاج کرنے کے بعد واپس زندگی کی طرف لوٹ آئے مگر آج بھی وہ واقعہ کبھی کبھی ان کو پریشان کرتا ہے۔
خیبر پختونخوا اور ضم ہونے والے قبائلی اضلاع 9/11 کے بعد بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گئے مگر 2007 کے بعد سے یہاں دہشتگردی کا راج رہا اور بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں میں نہ صرف ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے بلکہ اس کے ساتھ یہاں کے باسیوں پریہ جنگ گہرے معاشی، نفسیاتی اور معاشرتی نقوش چھوڑ گئی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صورتحال مخدوش ہے
سابقہ فاٹا کے ڈائریکٹوریٹ برائے صحت کے ڈیٹا کے مطابق ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ایک طرف اسپتال کی عمارتوں کی حالت زار تسلی بخش نہیں تو دوسری جانب سٹاف کی کمی کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ ادارے کے مطابق ضم شدہ قبائلی اضلاع میں اس وقت سات ہیڈکوارٹر اسپتال بشمول ایک ہزار کے لگ بھگ صحت سہولیات کے سنٹرز کے موجود ہیں جن میں 461 بی ایچ یوز، 215 کمیونٹی ہیلتھ سنٹرز، 174 بیسک ہیلتھ یونٹس کے ادارے جب کہ ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتالوں کی تعداد سات ہے۔
ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے قبائلی اضلاع میں 39 فیصد صحت کے مراکز کا عمارتی ڈھانچہ متاثر ہو چکا ہے جب کہ 85 فیصد عمارتیں جزوی طور پر خراب ہو چکی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 15 فیصد صحت کے مراکز کی عمارتیں بڑے پیمانے پر متاثر ہو چکی ہیں اور عمارتیں مہندم ہونے کے قریب ہیں۔ ڈیٹا کے مطابق قبائلی اضلاع کے بی ایچ یوز میں ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کی پچیس فیصد کمی کا سامنا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق بی ایچ یوز میں میڈیکل افسران کی کمی کا سامنا شمالی اور جنوبی وزیرستان کو ہے جہاں بی ایچ یوز میں میڈیکل افسران کا تناسب انتہائی کم ہے۔
نفسیاتی ماہرین اور ملکی اور بین الاقوامی تحقیق کے مطابق قبائلی اضلاع میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے اور ان مسائل کی بنیادی وجہ غیر یقینی صورتحال، دہشتگردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے اپنوں کا غم، بے روزگاری، کرفیو، گھروں اور بازاروں کا تباہ ہونا اور سب سے بنیادی وجہ اپنے علاقوں سے ہجرت کرنا ہے۔ دستاویزات کے مطابق سابقہ فاٹا کے ساتھ اضلاع کے مختلف اسپتالوں میں 2020 تک نفسیاتی بیماریوں کا کوئی بھی ماہر تعینات نہیں کیا گیا تھا مگر اب دو سے تین اضلاع میں ایک، ایک نفسیاتی بیماریوں کے ماہر کی تعیناتی ہو چکی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تعیناتیاں غیر تسلی بخش ہیں۔
دہشتگردی اور متاثرین کیمپ کی زندگی نے خواتین کو سب سے زیادہ متاثر کیا
رابعہ خان ایک ماہر نفسیات ہیں اور انہوں نے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ان علاقوں میں رونما ہونے والے نفسیاتی مسائل پر کئی سال تک کام کیا۔ رابعہ خان نے نہ صرف آئی ڈی پیز کے کیمپوں میں کئی مہینے گزار کر کام کیا بلکہ کرفیوز اور سخت جنگی حالات میں لوگوں کو نفسیاتی مسائل کے حوالے سے معاونت فراہم کی۔ رابعہ خان کے مطابق قبائلی اضلاع سے ہجرت کرنے والے مرد اور عورتیں دونوں مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار تھے لیکن ہمارا زیادہ وقت خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ کام کرتے گزرا۔
رابعہ خان کے مطابق ان کیمپوں اور اضلاع میں کام کرنے کا تجربہ انتہائی دردناک اور کرب ناک تھا۔ "میں نے سینکڑوں خاندانوں کو اُجڑتے دیکھا اورسینکڑوں ایسے لوگوں کے ساتھ کام کیا جن کا سب کچھ برباد ہو چکا تھا اور وہ نفسیاتی بیماریوں کے طوفان میں جکڑے ہوئے تھے"۔ رابعہ خان کے مطابق ان سابقہ قبائلی اضلاع کے لوگ پہلے دہشتگردی اور پھر ہجرت کی وجہ سے کئی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوئے جن میں anxiety, depression, PTSD or mixed Anxiety سرفہرست تھے۔
رابعہ خان نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اگر میں اپنے کام کا نچوڑ نکالوں تو میں یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ دہشتگردی اور پھر بعد میں ہجرت اور ہجرت کے بعد کیمپوں میں وہ دردناک زندگی میں اگر سب سے زیادہ کوئی متاثر ہوا ہے تو وہ خواتین اور بچے تھے۔ رابعہ خان نے جنگ زدہ علاقوں کے حوالے اپنے تاثرات بتاتے ہوئے کہا کہ جو لوگ خصوصاً خواتین جو طویل سفر کے بعد یہاں کیمپوں میں پہنچے تھے اُنھوں نے پہلے جنگ میں اور پھر راستوں میں اپنوں کو بچھڑتے دیکھا تھا۔ کسی کا خاوند مرگیا تھا تو کسی کا بیٹا، تو کسی کی ماں اور کسی کی بیٹی۔ اس وجہ سے اُن میں متعدد نفسیاتی بیماریاں دیکھی گئیں۔
سابقہ فاٹا جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور سات اضلاع پر مشتمل ہے، 2017 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی پچاس لاکھ سے زیادہ تھی مگر تحقیق کے مطابق قبائلی اضلاع میں نہ صرف صحت کی سہولیات کا فقدان ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان سات اضلاع میں کوئی ماہر نفسیات نہیں اور ایجنسی ہیڈ کوارٹر کے ہاسپتالوں سمیت تحصیل اسپتالوں میں تاحال کوئی ماہر نفسیات حکومت نے تعینات نہیں کیا۔ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اپنے علاقوں سے ہجرت کی اور کئی سالوں تک کیمپوں میں رہے لیکن نفسیاتی بیماریوں کے ماہرین کے مطابق ہجرت کرنے والوں میں زیادہ تر نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوئے اور ان نفسیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقوں کو واپس لوٹے اور ان علاقوں میں نفسیاتی بیماریوں کے ماہرین نہ ہونے کی وجہ سے تاحال وہ ان بیماریوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
'جڑواں بچوں میں سے ایک کو اپنے ساتھ لے جاؤ'
رابعہ کے مطابق کیمپوں کے غیر مناسب ماحول نے ان کو بہت متاثر کیا کیونکہ دیہات میں وہ بڑے بڑے گھروں میں رہتے تھے جہاں زندگی کا ایک نظام تھا جب کہ یہاں آ کر دو کمروں کے مکانوں میں چالیس اور پچاس لوگ رہتے تھے۔ نہ کوئی غسل خانہ تھا، نہ کچن، نہ کوئی تفریح کی جگہ جہاں وہ کچھ کر سکیں۔ رابعہ خان کے مطابق ان خواتین میں ریاست کے خلاف کافی غصہ پایا جاتا تھا اور وہ سمجھتی تھیں کہ ہمارے ساتھ سب کچھ ریاست نے کیا جب کہ دوسرا خوف جن کی وجہ سے نفسیاتی مسائل پائے گئے وہ ڈرون حملوں کا تھا اور خواتین نے کہا کہ ہم اس ڈر کی وجہ سے سو نہیں پاتی ہیں کہ کہیں ڈرون ہمارے گھر پر بمباری نہ کر دیں۔
نفسیاتی مسائل کی تیسری بنیادی وجہ اُن ماؤں میں زیادہ پائی گئی جن کے بچے بارودی سرنگ کے دھماکوں میں معذور ہو چکے تھے اور ان کو بستر پر دیکھ کر وہ روتی تھیں اور روز ایک ذہنی اذیت سے گزرتی تھیں۔
رابعہ خان کا کہنا تھا کہ بطور نفسیاتی امور کی ماہر وہ بھی ایک واقعے کی وجہ سے شدید صدمے سے گزریں جب ایک خاتون کو دیکھا جن کے جڑواں بچے پیدا ہو چکے تھے جن میں ایک کمزور جب کہ دوسرا صحت مند تھا اور اُن کے گھر والے رابعہ کی منتیں کر رہے تھے کہ اس کمزور والے بچے کو اپنے ساتھ لے جاؤں اور ان کو پالوں اور بچوں کی ماں پر سسرال والے دباؤ ڈال رہے تھے کہ اگر ایک بچے کو کسی کے حوالے نہیں کر سکتی تو اس کو مار دو۔ "میرے لئے یہ لمحہ انتہائی دردناک تھا اور اس طرح کی ہزاروں کہانیاں ہیں جن کی میں خود گواہ ہوں"۔
رابعہ خان کے مطابق 'شمالی وزیرستان میں جب میں سخت حالات میں نفسیاتی مسائل پر کام کر رہی تھی تو خواتین میں کثیر تعداد میں نفسیاتی بیماریاں پائی گئیں اور ان کی بنیادی وجہ جنگ اور غیر یقینی کی صورتحال تھی'۔ رابعہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے اسپتالوں میں نفسیاتی بیماریوں کے ماہرین نہیں ہیں اور یہی وجہ تھی کہ لوگ دکانوں سے نیند اور پرسکون رہنے کی ایک خاص دوا خریدتے تھے جو ہر گھر اور ہر گلی میں دستیاب تھی اور اب بھی ہزاروں لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں۔
'دوائیوں کا اثر ختم ہو جاتا تو اور زیادہ مقدار میں لیتا، پھر ڈرگز لینا شروع کر دیں'
خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں صوبائی حکومت کی جانب سے لوگوں کو نفسیاتی بیماریوں کے حوالے سے معاونت فراہم کرنے کے لئے سات عارضی مراکز قائم کیے گئے۔ صوبائی حکومت کے اس پروگرام کی دیکھ بھال کرنے والی ماہر نفسیات خولہ اسماعیل کہتی ہیں کہ قبائلی اضلاع میں نفسیاتی صحت پر حکومت کی جانب سے شروع میں کبھی توجہ نہیں دی گئی اور اب حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ زدہ علاقوں میں نفسیاتی صحت کے مسائل پر کام شروع کیا ہے۔ خولہ اسماعیل کے مطابق پہلے یہ مراکز پشاور میں تھے جہاں قبائلی اضلاع سے آنے والوں کو مفت علاج اور معاونت فراہم کی جاتی تھی کیونکہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے وہاں جانا مشکل تھا مگر جیسے ہی امن و امان یقینی ہو گیا تو اب حکومت نے تمام اضلاع کے اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں اس پروگرام کو شروع کیا ہے اور مختلف ٹیمیں قبائلی اضلاع میں ماہانہ اور ہفتے میں ایک یا دو دن کی بنیاد پر جاتی ہیں اور لوگوں کو علاج اور معاونت فراہم کرتی ہیں۔
دانش (فرضی نام) کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اور وہ اسلام آباد میں ایک ماہر نفسیات سے گذشتہ تین سال سے علاج کے لئے جنوبی وزیرستان سے اسلام آباد آتے ہیں۔ دانش کے مطابق جنوبی وزیرستان میں امن و امان کی غیر یقینی صورتحال کے بعد جب اُن کے خاندان نے سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی تو اُن کی عمر سولہ سال کے لگ بھگ تھی اور وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ دانش کے مطابق جب وہ ہجرت کر کے جا رہے تھے تو انھوں نے راستوں میں لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا اور پھر آئی ڈی پیز کے کیمپس میں شدید کرب سے گزرے کیونکہ وہاں نہ صرف سہولیات کا فقدان تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سخت گرمی نے اُن کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ دانش کے مطابق دو کمروں کے مکان میں چالیس سے ساٹھ لوگ زندگی گزار رہے تھے جہاں نہ غسل خانے اور نہ ہی دیگر سہولیات موجود تھیں۔ جب وہ دیکھتے تھے کہ ان کے علاقے کے معزز مرد اور خواتین جنھوں نے زندگی میں کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اور ہمیشہ خودداری کی زندگیاں گزاریں، راشن کے لئے قطاروں میں ذلیل ہورہے ہیں تو یہ لمحہ ان کو ایک ذہنی کرب میں مبتلا کرتا تھا۔
ڈیٹا کے مطابق ضم شدہ قبائلی اضلاع کے صحت کے مراکز میں 35 فیصد لیڈی ہیلتھ ورکرز کی کمی کا سامنا ہے جب کہ میڈیکل کی دیگر تکنیتی ٹیم کے سٹاف کو 28 فیصد کمی کا سامنا ہے اور جنوبی وزیرستان میں صرف 14 فیصد میڈیکل ٹیکنیشن موجود ہیں۔ ڈیٹا کے مطابق پورے سابقہ فاٹا میں لیب ٹیکنیشنز کا صرف 14 فیصد سٹاف موجود ہے۔
مردوں میں سب سے زیادہ بیماریاں سائکوسس اور Schizophrenia کی بیماریاں پائی گئی ہیں
خولہ اسماعیل نے قبائلی اضلاع میں نفسیاتی بیماریوں پر اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع میں آج ڈپریشن، اینگزائٹی، خوف، بے چینی، وسوسے، شدید غصہ اور پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (PTSD) سمیت پاگل پن کی بیماریاں بہت زیادہ ہیں اور ان کی بنیادی وجہ جنگ و جدل کا ماحول اور دہشتگردی ہے۔ ان بیماریوں کی جڑیں جنگی ماحول کے ساتھ جڑی ہیں کیونکہ گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ وہ جنگی ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ خولہ کے مطابق یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بطور شہری ریاست نے ان کو نہ صرف تحفظ فراہم نہیں کیا بلکہ اُن کی محرومیوں میں بھی اضافہ کر دیا۔ اس وجہ سے لوگوں میں شدید غصہ اور مایوسی ہے اور بعد میں وہ کسی نفسیاتی بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ خولہ کے مطابق جنگ کے مسلسل ماحول کی وجہ سے ان لوگوں کو شروع میں نفسیاتی معاونت فراہم نہیں کی گئی تو زیادہ تر نفسیاتی مریضوں میں نشہ آور اشیا کا استعمال پایا گیا۔ لوگ عارضی سکون کے لئے نشہ کرتے ہیں۔ لیکن مردوں میں سب سے زیادہ بیماریاں سائکوسس اور Schizophrenia کی بیماریاں پائی گئی ہیں۔
دانش کو ان تمام چیزوں نے پریشان کیا تھا اور وہ ہمیشہ صدمے میں رہتے تھے۔ دانش نے کہا کہ "2010 سے میں نے ذہن کو سکون دینی والی دوائیں اور نیند کی دوائی استعمال کرنا شروع کیں جس سے مجھے عارضی افاقہ ہوا لیکن جیسے ہی ان دوائیوں کا اثر ختم ہو جاتا تھا تو مجھے ایسے لگتا تھا کہ میری دنیا اُجڑ گئی ہے اور دوبارہ سے میں وہ دوائیاں استعمال کرتا تھا اور یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا۔ جب ہم واپس اپنے علاقے میں آئے تو ہمارے گھر اور بازار تباہ ہو چکے تھے اور حکومت نے سالوں بعد جو معاوضہ ہمیں دیا اُن سے ایک یا دو کمرے ہی واپس تعمیر ہو سکتے تھے"۔
دانش نے مزید کہا کہ جب انھوں نے رشتہ داروں کو مرتے ہوئے دیکھا، جب انھوں نے اپنے تباہ شدہ مکانات اور بازار دیکھے تو ان کے ذہنی صدمے میں مزید اضافہ ہوا اور وہ ذہنی سکون کی دوائیں اور زیادہ مقدار میں لینے لگے تھے۔ "مگر جس وقت دوائیوں کا اثر ختم ہو جاتا تھا میری زندگی دوبارہ سے کرب سے دوچار ہو جاتی تھی اور دوائیوں کے استعمال سے تنگ آ کر میں نے ڈرگز لینا شروع کیے"۔ اس سے نہ صرف اُن کی نفسیاتی صحت اور زیادہ متاثر ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا جسم بھی کافی حد تک لاغر ہوا جس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ 'میں اپنی زندگی کو برباد نہیں کروں گا اور ایک نئے عزم کے ساتھ زندگی شروع کروں گا'۔
علاج کے لئے بتا کر نہیں جاتے کہ کہیں لوگ پاگل نہ سمجھیں
دانش کے مطابق وہ کئی بار جنوبی وزیرستان ہیڈکوارٹر اسپتال علاج کے لئے گئے لیکن وہاں پر نفسیات کا کوئی ماہر نہیں تھا اور عام ڈاکٹرز بھی اُن کو وہی دوائیاں لکھ دیتے تھے جو وہ پہلے سے استعمال کرتے تھے۔ ان کے مطابق وہ اپنی ذہنی صحت کے حوالے سے بہت پریشان تھے اور انھوں نے اپنا مسئلہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھنے والے ایک دوست کو بتایا تو اُن کے دوست نے اُن کو تسلی دی اور اسلام آباد میں ایک ماہر نفسیات کے پاس لے گئے۔ دانش نے مزید کہا کہ میری ماہر نفسیات ایک خاتون تھی اور کلینک میں کئی مریض ہونے کے باوجود میری ماہر نفسیات نے مجھے تین گھنٹوں تک سنا اور مجھے ہمت دی کہ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی اور تم نے دوبارہ سے زندگی کی شروعات کرنی ہے۔ "میری ماہر نفسیات کے مطابق میں (Post-Traumatic Stress Disorder) نامی بیماری کا شکار ہوں اور اس سے نکلنے کے لئے مجھے کئی سال تک علاج کی ضرورت ہے"۔
دانش کے مطابق جب بھی وہ اپنے ماہر نفسیات سے ملنے کے لئے اسلام آباد آتے ہیں تو کسی کو یہ نہیں بتاتے کہ وہ ماہر نفسیات کے پاس جا رہے ہیں کیونکہ لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ جو ماہر نفسیات کے پاس جاتا ہے وہ پاگل ہوتا ہے۔ دانش نے کہا کہ میں ایسے درجنوں نوجوانوں سے ملا ہوں جو ذہنی سکون کی دوائیاں، نیند کی دوائیاں اور ڈرگز لیتے ہیں مگر ماہر نفسیات کے پاس نہیں جاتے کیونکہ اُن پر سماجی دباؤ ہے۔ دانش نے مزید کہا کہ ذہنی سکون کی کئی کمپنیوں کی دوائیاں ہر میڈیکل سٹور سے باآسانی دستیاب ہیں اور ڈاکٹر کی ہدایات کے بغیر بھی آپ یہ دوائیاں جتنا چاہے خرید سکتے ہیں۔
ڈیٹا کے مطابق قبائلی اضلاع کے مختلف مراکز صحت میں میڈیکل افسران کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ اس وقت صحت مراکز میں 47 فیصد میڈیکل افسران کی کمی کا سامنا ہے جب کہ صحت کے مختلف مراکز میں خاتون میڈیکل افسران نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صحت کے مراکز میں نرسز کا تناسب صرف 7 فیصد ہے جن میں خواتین نرسز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتالوں میں فزیشنز کی کمی کا بھی سامنا ہے اور اسپتالوں میں صرف 29 فیصد فزیشن موجود ہے۔ قبائلی اضلاع میں اگر دانتوں کے ڈاکٹرز کے تناسب کا جائزہ لیا جائے تو ڈینٹل سرجن کے 50 فیصد سٹاف کے کمی کا سامنا ہے جب کہ امراض چشم کے ماہرین صرف 29 فیصد موجود ہیں۔ قبائلی اضلاع کے اسپتالوں میں امراض نسواں کے صرف 36 فیصد ڈاکٹرز موجود ہیں جب کہ کوئی ماہر نفسیات اسپتالوں میں تعینات نہیں ہو سکے۔
ڈاکٹر کے دوائی لکھنے کو لوگ پاگل پن کا ثبوت سمجھتے ہیں
شوکت اللہ ضلع باجوڑ میں ایک فارمیسی کی دکان چلا رہے ہیں اور ان کے مطابق ایک سال پہلے تک باجوڑ میں نفسیاتی بیماریوں کا کوئی ماہر موجود نہیں تھا لیکن ایک سال پہلے ایک ڈاکٹر جو پشاور سے آتے تھے انھوں نے یہاں پر پرائیوٹ کلینک شروع کیا اور ابھی تین مہینے پہلے باجوڑ میں سرکاری اسپتال میں بھی ایک ماہر نفسیات کو تعینات کیا گیا مگر اتنی بڑی آبادی کے لئے ایک ماہر نفسیات کو تعینات کرنا مذاق سے کم نہیں۔ شوکت کے مطابق باجوڑ میں لوگوں میں نفسیاتی مسائل موجود تھے لیکن 2007 کے بعد امن و امان کے حالات خراب ہو گئے اور بعد میں فوجی آپریشنز ہوئے۔ لوگ اپنے گھروں سے دربدر ہو گئے تو ان مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ شوکت کے مطابق ان کا بڑا بھائی جو ایک صحت مند انسان تھا لیکن حالات خراب ہونے کے بعد وہ سخت حالات کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ہوا اور اب شدید بیمار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ باجوڑ میں مرد اور خواتین دونوں میں نفسیاتی مسائل ہیں لیکن خواتین میں ڈپریشن اور دیگر بیماریاں بہت زیادہ ہو گئی ہیں اور ان کی کئی وجوہات ہیں۔ شوکت کے مطابق نوجوانوں میں نفسیاتی بیماریاں زیادہ دیکھی گئیں اور ان کی وجوہات میں امن و امان کی خراب صورتحال سمیت بے روزگاریاں اور بدترین معاشی صورتحال سر فہرست ہیں۔ شوکت کے مطابق لوگ سکون اور نیند کی دوائیاں زیادہ مقدار میں خریدتے ہیں مگر جب طبی ماہرین اُن کو ڈپریشن اور دیگر بیماریوں کی دوائیاں لکھتے ہیں تو وہ خریدنے سے انکاری ہوتے ہیں اور یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم پاگل تو نہیں کہ یہ دوائیاں خرید لیں۔ ان کی نظر میں صرف پاگل ہی دوائیاں استعمال کرتے ہیں۔ شوکت کے مطابق جنگ کے بعد یہاں نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ دیکھا گیا اور حکومت سمیت دیگر سماجی اداروں کو چاہیے کہ وہ یہاں پر شعور پھیلانے کو ترجیح دیں۔
قبائلی اضلاع میں نفسیاتی بیماریوں کے تناسب پر کوئی خاص اعداد و شمار موجود نہیں مگر پشاور میں ماہر نفسیات کا ماننا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں متاثر ہونے والے علاقوں کے رہائشی زیادہ تعداد میں پشاور کے نفسیاتی ماہرین سے علاج کے لئے پشاور آتے ہیں اور مریضوں میں ڈپریشن، PTSD، گھبراہٹ اور بے خوابی کے امراض کا شکار زیادہ شامل ہیں۔
'جب آپ کو پتہ ہو کہ اگر آپ رپورٹنگ کرتے ہوئے مر گئے تو ادارہ آپ کے گھر والوں کو کوئی معاوضہ نہیں دے گا'
جاوید حسین ضلع کرم ایجنسی پارہ چنار کے رہائشی ہیں اور گذشتہ پندرہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ جاوید حسین نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ سابقہ فاٹا کے رہائشیوں کی طرح قبائلی اضلاع میں صحافی بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے۔ جاوید کے مطابق ان کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنا اور میڈیا کی طرف سے معاوضہ نہ دینا جب کہ دوسری وجہ امن و امان کی غیر یقینی کی صورتحال اور صحافی دوستوں کا قتل ہونا تھا۔ نفسیاتی بیماریوں کے ماہرین نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوا۔ جاوید حسین کے مطابق پارہ چنارمیں دہشتگردی کی رپورٹنگ کرنا ایک مشکل کام تھا اور پھر جب اطلاع ملتی تھی کہ قبائلی اضلاع میں کسی صحافی کو قتل کیا گیا ہے تو باہر جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ جب بھی کسی بازار یا احتجاج کی کوریج کے لئے جاتے تو یہی ڈر ہوتا کہ ابھی دھماکہ یا کوئی خودکش حملہ ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے ایک ذہنی دباؤ مسلسل برقرار رہتا تھا۔
ان کے مطابق کرم میں 2007 سے 2011 تک حالات خراب تھے اور کرم کو باقی ملک ملانے والی شاہراہ فرقہ واریت کی جنگ کی وجہ سے بند پڑی تھی تو ہم کرم سے پہلے افغانستان اور پھر وہاں سے طورخم بارڈر اور پھر پشاور آتے تھے اور واپسی کے لئے بھی یہی راستہ اختیار کرتے تھے۔ یہ ایک ذہنی کرب تھا جس سے نہ صرف مقامی صحافی گزرے بلکہ عام لوگ بھی۔ ان کے مطابق دوسرا خوف خاندان والوں کا ہوتا ہے۔ جب آپ کو پتہ ہو کہ ڈیوٹی کے دوران اگر میں مارا گیا تو میرا میڈیا ادارہ میرے گھر والوں کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کرے گا تو خوف کا کیا عالم ہوگا؟ "اس ڈر کا صرف میں نہیں، دیگر صحافی بھی شکار تھے"۔ جاوید کے مطابق قبائلی اضلاع اور کرم میں جنگ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں میں نفسیاتی مسائل زیادہ پائے گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے مطابق وہ تمام ڈاکٹرز جو سابقہ فاٹا کے میڈیکل کوٹے پر MBBS کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں، ان کے لئے طریقہ کار وضع کیا گیا تھا کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان اضلاع میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سرانجام دیں گے مگر امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے یہ ان علاقوں میں فرائض سرانجام دینے سے کتراتے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں گذشتہ بیس سال سے فارمیسی چلانے والے دکاندار شامل خان نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اگر ہم بیس سال پہلے کا جائزہ لیں تو یہاں کے مقامی لوگ ایک صحت مند زندگی گزار رہے تھے لیکن دہشتگردی کے واقعات اور بعد میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے بیچ جنگ شروع ہوئی تو لوگوں میں نفسیاتی مسائل جنم لینا شروع ہوئے۔ ان میں ایک بڑا اضافہ اس وقت دیکھا گیا جب لوگ سالوں بعد کیمپوں سے واپس اپنے گھروں کو لوٹے۔ شامل خان کے مطابق 'اس کی ایک وجہ کیمپوں میں مشکل زندگی تھی جو میں نے بھی گزاری ہے اور میں بھی ڈپریشن اور خوف کا مریض بن گیا اور تاحال دوا لے رہا ہوں'۔ انھوں نے مزید کہا کہ کیمپوں میں زندگیاں مشکل تھیں لیکن جب لوگ تباہ شدہ مکانات اور بازاروں کو دیکھتے تھے تو اُن کو اپنامستقبل غیر یقینی لگتا تھا اور درجنوں لوگ جو میری دکان سے دوائی لیتے تھے وہ یہی شکایت کرتے تھے کہ یہ تباہ شدہ بازار اور گھر ہم کیسے آباد کریں گے۔ اسی خوف کی وجہ سے وہ عارضی سکون کی دوائیاں لیتے تھے کیونکہ شمالی وزیرستان کے اسپتال میں دیگر بیماریوں کے طبی ماہرین کی کمی ہے تو نفسیاتی ماہرین کی بات تو الگ ہے۔
ہندوستانی دوائیاں سستی ہیں، لوگ زیادہ خریدتے ہیں
انھوں نے مزید کہا پندرہ سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا جو لوگوں نے جنگ میں گزارا مگر حکومت تاحال اسپتال میں کوئی ماہر نفسیات تعینات نہیں کر سکی۔ ایک سوال پر کہ لوگ سکون اور نیند کے لئے کونسی ادویات زیادہ تعداد میں خریدتے ہیں، شامل خان نے بتایا کہ لوگ پہلے پاکستانی کمپنیوں کی دوائیاں خریدتے تھے مگر قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اب لوگ ہندوستان سے آنے والی دوائیاں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی دوائیاں جو یہاں کے بازاروں میں دستیاب ہیں، ان کی قیمتیں پاکستانی کمپنیوں کی دوائیوں سے پچاس سے ساٹھ فیصد کم ہیں۔ اس لئے لوگ یہی خریدتے ہیں۔ ایک سوال پر کہ کیا لوگ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق سکون اور نیند کی دوائیاں خریدتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہمیں دوائیوں کے مخصوص نام یاد ہیں اور جو یہ دوائیاں خریدتے ہیں ان کو بھی نام یاد ہیں، اس لئے لوگ نام لیتے ہیں اور ہم دوائیاں دیتے ہیں کیونکہ اگر ہم ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق دیں تو لوگ تو ذہنی اذیت اور بے خوابی سے مر جائیں گے۔
خولہ اسماعیل کا ماننا ہے کہ قبائلی اضلاع میں نفسیاتی بیماریوں کے حوالے سے کوئی مناسب اعداد و شمار نہیں کیونکہ ملکی سطح پر بھی اس حوالے سے کوئی سروے نہیں ہوا تو قبائلی اضلاع میں کیا اعداد و شمار دستیاب ہوں گے؟ خولہ اسماعیل کے مطابق اگر یہاں سروے کا انعقاد کیا جائے تو قبائلی اضلاع میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ نفسیاتی امراض کا شکار نکلیں گے اور اگر ان علاقوں میں امن حقیقی بنیادوں پر بحال نہیں کیا گیا اور لوگوں کو نفسیاتی اور مالی معاونت فراہم نہیں کی گئی تو یہاں نفسیاتی صحت کے حوالے سے سنگین مسائل جنم لیں گے۔ خولہ اسماعیل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کے ایک خاص تناسب کے لئے مخصوص تعداد میں نفسیاتی ماہرین کا چناؤ کیا جاتا ہے مگر یہاں ایسا کوئی نظام نہیں۔
خولہ اسماعیل نے مزید بتایا کہ قبائلی اضلاع میں مستقبل بنیادوں پر نفسیاتی بیماریوں کے ماہرین کی تعیناتی ہونی چاہیے کیونکہ ہماری ٹیمیں ہفتہ وار اور ماہانا بنیادوں پر وہاں جا کر معاونت اور علاج فراہم کرتی ہیں جو کہ ناکافی ہے۔ قبائلی اضلاع میں جو نفسیاتی بیماریوں کے حوالے سے بدترین حالات ہیں وہاں مستقل جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے۔ خولہ اسماعیل کے مطابق سابقہ فاٹا کی آبادی اور نفسیاتی صحت کی بدترین صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت کی یہ کوششیں تسلی بخش نہیں۔