سوات میں رہنے والوں کے ساتھ مقبوضہ علاقے کے شہریوں جیسا سلوک بند کیا جائے

سوات میں رہنے والوں کے ساتھ مقبوضہ علاقے کے شہریوں جیسا سلوک بند کیا جائے
سوات ایک بار پھر خوف اور دہشت کی زد میں ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس نہ ختم ہونے والے المیے میں ریاست اور اس کے اداروں کا کردار دن بدن مشکوک سے مشکوک تر ہوتا جا رہا ہے۔

8 اکتوبر بروز ہفتہ صبح کے وقت ایک دل خراش خونی واقعہ پیش آیا جس میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں باپ بیٹے کو قتل کر کے مقتولین کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ مقامی صحافی پورا دن ہر طرح کا خطرہ مول لے کر اس واقعے کی تحقیقات میں جتے رہے اور بڑی مشکل سے انہیں اصل کہانی معلوم ہوئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا میں صرف عسکری اور سرکاری بیان نے ہی جگہ بنائے رکھی۔ سرکاری بیان کے مطابق 'فورسز کے ساتھ جھڑپ میں 2 دہشت گرد ہلاک اور 4 اہلکار زخمی ہوئے'۔ مین سٹریم میڈیا میں تو یہی خبر بدستور چلتی رہی اور مایوس ہو کر مقامی صحافیوں کو متاثرہ فریق کے بیان پر مبنی ورژن سوشل میڈیا پر چلانا پڑا۔

متوفی علی سید کے بیٹے نے جو کچھ سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر کو کہا، وہ میں ان کی فیس بک وال اور مقامی خبروں کی ویب سائٹ 'خبرکار' سے من و عن قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں:
"مینگورہ کے بائی پاس پر مبینہ مقابلے کی اصل کہانی سامنے آ گئی۔ جاں بحق باپ بیٹا دونوں دہشت گرد نہیں تھے بلکہ رقم کی لین دین کے معاملے پر دونوں کو مارا گیا جس میں ایک افغانی، ایک سوات اور ایک پنجاب سے تعلق رکھنے والا شخص بھی ملوث ہیں۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق مبینہ مقابلے میں جاں بحق ہونے والے 55 سالہ علی سید کا تعلق چکیسر ضلع شانگلہ سے تھا۔ وہ کافی عرصہ پہلے سوات منتقل ہوئے تھے۔ مینگورہ کے نواحی علاقے اینگرو ڈھیرئی میں رہائش پذیر تھے۔ علی سید کے بیٹے وقاص احمد نے باخبر ذریعے 'سوات ڈاٹ کام' کو بتایا کہ ان کے مرحوم والد اور بھائی کا بائی پاس پر وزن کا کانٹا تھا۔ ان کا دوسرا بھائی اویس احمد سوات میں موجود کچھ افغانیوں اور پنجاب کے لوگوں کے ساتھ ملازم تھا۔ اویس ان کا ایک چیک بینک سے کیش کرا کر فرار ہو گیا تھا، جس کے بعد وہ لوگ ان کو رقم کی واپسی کے لیے دھمکیاں دے رہے تھے۔ اس مسئلے پر علاقہ مشران کا جرگہ بھی ہوا تھا۔
7 روز قبل نامعلوم نقاب پوش افراد نے ان کے بھائی 19 سالہ انیس کو وزن کانٹے سے اغوا کیا۔ ہفتے کی صبح سادہ لباس میں کچھ نقاب پوش افراد ایک گاڑی پاسو رجسٹریشن نمبر AXR337، ماڈل 2006، انجن نمبر 1kr-0306436، چیسس نمبرkgc10-0121279 جو محمد ذوالفقار جتوئی ولد فقیر محمد جتوئی کے نام پر رجسٹرڈ ہے، میں ان کے بھائی کو لے کر آئے۔ وقاص احمد نے بتایا کہ یہ نقاب پوش افراد کانٹا پر میرے والد کے کمرے میں گئے اور رقم کا مطالبہ کیا۔ اس دوران گالم گلوچ کے ساتھ ہی فائرنگ شروع ہو گئی۔ میرے والد کی فائرنگ سے 4 نقاب پوش افراد زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد مزید لوگوں کو بلا لیا گیا جو فورسز والی وردی میں تھے۔ انھوں نے آ کر میرے والد اور مغوی بھائی کو گاڑی سے اتارا اور فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
وقاص احمد نے بتایا کہ افغانیوں اور پنجاب کے لوگوں کی رقم جو میرا بھائی لے کر بھاگ گیا تھا، اس میں سے ہم نے زیادہ رقم ادا کر دی ہے۔ اب صرف 12 لاکھ روپے باقی ہیں۔ انھوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔"

اس لین دین کے دوسرے فریق کے ایک رشتہ دار نے بھی اس مالی تنازعہ کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ جن کو افغان بتایا جاتا ہے وہ پاکستانی شہری ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کو ذاتی طور پر اس تنازعہ کا علم ہے اور اس کے تصفیہ کے لیے جرگہ بھی ہوا تھا۔

راقم نے دو مرتبہ ایس ایس پی سوات سے رابطہ کیا، دوپہر 2 اور 3 بجے کے درمیان اور 4:57 پر لیکن دونوں دفعہ موصوف نے جواب دیا کہ وہ فیلڈ میں مصروف ہیں اور بعد میں کال کریں گے۔ آخری دفعہ جب میں نے پوچھا کہ کیا اس کارروائی میں پولیس بھی شامل تھی تو صرف یہ کہا کہ اس وقت میرے پاس بتانے کے لیے کوئی تفصیلات نہیں ہیں، بعد میں بتا دوں گا۔ مزید براں، آئی ایس پی آر سوات کے دستیاب دونوں لینڈ لائن نمبرز پر بھی رابطہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پختون علاقوں کو ایک تاریک غار بنا دیا گیا ہے جہاں اب تک بے شمار ماورائے آئین و قانون واقعات ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے بھی سکیورٹی فورسز کے اہلکار اس قسم کے نجی لین دین اور سماجی تنازعات میں سرکاری منصب کا ناجائز استعمال کر چکے ہیں لیکن اس وقت کے ماحول اور حالات کی وجہ سے یہ واقعات دب گئے تھے۔ 'ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن' سکیورٹی فورسز کو بے تحاشا اختیارات دیتے ہیں لیکن ان کی نگرانی اور احتساب کا عمل کمزور جمہوریت اور انصاف کے کمزور اداروں کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں عوامی بحث و تنقید سے ماورا ہیں۔ یہی وجوہات سکیورٹی فورسز کے اختیارات کے ناجائز استعمال کا باعث بنتی ہیں۔

یہ تاثر پہلے عوام میں عام تھا کہ 2009 کے فوجی آپریشن کے بعد فورسز کی تعیناتی اور اختیارات کو عوامی رد عمل کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا اور یہی انفراسٹرکچر اس تزویراتی جنگ کے نئے مرحلے میں استعمال ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اس تاثر کو کچھ ریاستی اقدامات مزید تقویت پہنچاتے ہیں۔ مثلاً جب پشاور ہائی کورٹ نے جسٹس وقار سیٹھی کی سربراہی میں 'ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن' کو کالعدم قرار دیا تھا تو پی ٹی آئی کی انقلابی حکومت نے بلا توقف سپریم کورٹ سے سٹے آرڈ لے کر اس فیصلے کو چیلنج کر دیا تھا جو آج تک التوا کا شکار ہے اور مائی لارڈز کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی تو کہیں نظر نہیں آتے۔ دہشت گردی اور انسانی حقوق سے متعلق مسائل تو شاید ان کے دائرہ کار سے ہی باہر ہیں۔ وزیراعلیٰ کا تعلق سوات سے ہے۔ ان کا دوسرا بھائی تحصیل چیئرمین اور تیسرا ویلج چیئرمین ہے لیکن پچھلے تین مہینوں سے تینوں منظر سے غائب ہیں۔ جب اگست کے دوسرے ہفتے میں ان کے آبائی علاقے تحصیل مٹہ میں طالبان نے ایک ڈی ایس پی کو اغوا کر لیا تھا اور اس کے بعد 13 اگست کو میں ان کی مٹہ میں رہائش گاہ پر پہنچا کہ بحیثیت تحصیل چیئرمین ان کے بھائی کا انٹرویو کروں تو گیٹ پر تعینات گارڈ نے کہا کہ وہ اسلام آباد گئے ہوئے ہیں اور وزیر اعلیٰ پشاور میں ہیں۔

اس حالیہ واقعے میں بد قسمتی سے ریاستی ادارے شفاف تحقیقات کر کے انصاف دلانے کے بجائے عوام اور ان کی آواز دبانے میں مصروف ہو گئے۔ سوات عوامی تحریک (سوات اولسی پاڅون) نے جب اس واقعے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے عوامی مقامات اور چوراہوں پر عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی۔ دوسری جانب اتوار کی صبح گاؤں کوزہ بانڈہ میں بغیر کسی پیشگی اطلاع یا اعلان کے فوجی جوانوں نے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر پوزیشن لے لی۔ اس کے خلاف مقامی لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے اور ان کے احتجاج کے بعد فوجی جوان چھتوں سے نیچے اتر گئے۔

سوات کے عوام میں یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ریاستی ادارے ان کے ساتھ کسی مقبوضہ علاقے کے باسیوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں کو اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرنی چاہئیے کیونکہ انسانی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔