قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پبلک اکاوٗنٹس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے افسران نے انکشاف کیا کہ HEC کی جانب سے سرکاری سکالرشپ پر بیرون ملک بھیجے گئے 132 سکالرز پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے قانون کے مطابق ملک واپس نہیں لوٹے جبکہ 52 طالب علم بیرونی ملکوں میں قائم یونیورسٹیوں میں اپنی کارگردگی قائم نہیں رکھ سکے اور فیل ہونے کے بعد ملک واپس لوٹے۔
ٓایچ ای سی کے سرکاری حکام نے پبلک اکاوٗنٹس کمیٹی کے سال 2017-18 کے آڈٹ کے موقع پر کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ان سکالرز پر 955 ملین روپے کا خرچہ کیا اور ملکی خزانے کی ایک کثیر رقم ان پر خرچ ہوئی۔ سرکاری افسران نے مزید کہا کہ جو سکالرز مختلف ممالک میں ایچ ای سی کی جانب سے سکالرشپ پر پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد قانون کے مطابق ملک واپس نہیں آئے کوئی ایسا قانون نہیں کہ ہم ان کو واپس بُلا سکیں مگر ملک کی مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف کیسز چل رہے ہیں اور صرف ایک سکالر نے سرکاری خزانے کو رقم واپس کی۔
ایچ ای سی کے افسران نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 52 طالب علم ایسے تھے جن کو ہم نے پی ایچ ڈی کے لئے باہر بھیجا تھا مگر وہ امتحانات پاس نہیں کرسکے اور ملک واپس لوٹے۔ایچ ای سی کے حکام نے مزید کہا کہ 132 میں سے 44 پی ایچ ڈی سکالرز Overseas Scholarship Scheme for PHD Phase 1 سے مستفید ہوئے تھے اور ان کے خلاف کیسز عدالتوں میں ہیں جبکہ فیز ٹو میں بھی 68 سکالرز ملک واپس نہیں لوٹے۔
ایچ سی حکام نے کہا کہ اب نئے سکالرز کے لئے ایک نیا طریقہ کار بنایا جارہا ہے کہ جو بھی طالب علم ملک سے واپس جائے گا وہ زمین یا گھر کی گارنٹی ایچ ای سی کے پاس رکھے گا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جاسکے۔ جس پر پبلک اکاوٗنٹس کمیٹی کے کنوینیز نور عالم خان نے اعتراض کرتے ہوئے نقطہ اُٹھایا کہ یہ عجیب منطق ہے کہ اپ لوگ یہ نئی شرط نکال رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ظاہر سی بات ہے کہ سکالرشپ پر بیرون ملک غریب لوگ ہی جاتے ہیں امیر نہیں جاتے، تو وہ گارنٹی کیسے رکھ سکتے ہیں؟ جس پر ایچ سی کے افسران نے کہا کہ نوے فیصد تعداد ان طالب علموں کی ہے جو امیر ہیں اور غریب بہت کم جاتے ہیں اس لئے اب کچھ غریب لوگوں کے لئے قوانین نرم نہیں کرسکتے۔ جس پر کمیٹی نے کہا کہ آپ کسی ایسے بندے سے گارنٹی مانگیں جس سے کل کو وصولی بھی ممکن ہوسکے۔