اب مشہور زمانہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس واقعے کی ذمہ داری خاتون پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ اسے رات گئے گھر سے نہیں نکلنا چاہیئے تھا۔
https://twitter.com/theodahad_/status/1304014694362099712
اس وقت سوشل میڈیا پر سی سی پی او لاہور کے اس قابل مذمت اور احساس سے عاری بیان پر شدید تنقید کے ساتھ ساتھ ان کو فوری طور پر عہدے سے برخاست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
تاہم سی سی پی او عمر شیخ کا اگر ریکارڈ دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں انٹیلیجنس بیورو نے ان پر کیرئر کے دوران خواتین کو ہراسان کرنے، انکے جنسی استحصال اور اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے سنگین الزامات نے اپنی ادارہ جاتی انکوائری کے دوران لگائے تھے۔ مبینہ طور پر میڈیا میں سامنے آنے والی آئی بی رپورٹ نے جہاں عمر شیخ کو مجموعی طور مالی معاملات میں کرپٹ قرار دیا ہے وہیں ان پر اخلاقی طور پر بھی کرپٹ قرار دیا ہے۔
اس رپورٹ میں تفصیلی طور پر لکھا گیا ہے کہ وہ جب ڈی پی او سرگودھا تعینات ہوئے تو انہوں نے ایس ایچ اوز اور دیگر انسپیکٹرز کی تعیناتی کے لئے رقم وصول کی جب کہ یہ افسران ڈی ایس پی کے ذریعے انہیں ایک لاکھ ماہانہ فی کس ادا کرتے تھے۔
آئی بی رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ وہ انتہا کی حد تک جوا کھیلتے تھے اور اس دوران انکی عوامی خدمت پر توجہ نہیں تھی۔
تاہم ریپ کیس پر سی سی پی او کے ریمارکس سے جڑتی اہم تفصیل یہ ہے کہ آئی بی رپورٹ میں عمر شیخ کو ایک شرابی، جواریہ اور ویمنائزر(عورت باز) قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے ایک لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ غیر قانونی جنسی تعلقات قائم کئے۔ یاد رہے کہ عمر شیخ صحافی انصار عباسی کو اس حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس رپورٹ کو کیسے ٹھیک مان لیا جائے جس میں میرے بیٹوں کی تعداد ہی غلط درج ہے۔