(ندیم فاروق پراچہ)
’’نظریۂ پاکستان‘‘ کی اصطلاح بانیانِ پاکستان نے کبھی استعمال نہیں کی تھی۔ اس کے باوجود یہ اصطلاح پاکستان کی درسی کتب میں جابجا ملتی ہے ۔ اس کی گونج کئی عشروں سے پارلیمان سے لے کر سیاسی جلسوں اور میڈیا میں سنائی دے رہی ہے ۔ تاثر یہ جارہا ہے جیسے اس کا تصور 70 سال پہلے محمد علی جناح نے دیا تھا۔
’’نظریۂ پاکستان‘‘ کی اصطلاح کا سب سے پہلا حوالہ 1957ء میں قوم پرست مورخ، آئی ایچ قریشی نے اپنی کتاب میں دیا تھا۔ مسٹر قریشی اس اصطلاح کو ’’دوقومی نظریے ‘‘ کی توسیع شدہ حالت بیان کرتے ہیں۔ مسٹر جناح کے تخلیق کردہ دوقومی نظریے کا مطلب یہ تھا ہے کہ انڈیا کے مسلمان سیاسی اور ثقافتی طور پر ایک الگ قوم ہیں۔
1958 ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان (دائیں طرف سے نمایاں)نے کچھ نامور دانشوروں کے پاس ایک سوالنامہ بھجوایا ۔ اس میں اُن سے نظریۂ پاکستان کی وضاحت کرنے کا کہا گیا۔
1960 ء میں ایک تقریر میں ایوب خان نے دعویٰ کیا: ’’پاکستان ملائیت کے نفاذ کے لیے حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے حصول کی وجہ ایک روشن خیال معاشرے کا قیام تھا۔ یہ زندگی اور مذہب، دونوں کے ساتھ صریحاً ناانصافی ہے کہ بیسویں صدی کے انسان پر وہ حالات مسلط کردیے جائیں جو اُسے کئی صدیاں پیچھے لے جائیں تاکہ وہ خود کو ایک سچا مسلمان ثابت کرسکے ۔‘‘ایوب خان کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت مسٹر جناح اور محمد اقبال کی طرح اسلام کے جدید تصورات کی پیروی کرے گی۔ یہ تھی نظریۂ پاکستان کی اولین وضاحت۔
یہ 1962ء کے آئین پر ہونے والی بحث تھی جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ ’’نظریۂ پاکستان ‘‘ کی اصطلاح سننے میں آئی۔
1967 ء میں جماعتِ اسلامی کے بانی اورمذہبی دانشور، ابو العلی مودوی (بائیں جانب)نے کھل کر ایوب خان کے ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کی مخالفت کی ۔ مولانا مودودی نے اسے بے حد ’’مغرب زدہ اور سیکولر ‘‘ قرار دیا۔ مولانا نے اپنی جماعت کے نظریے سے نظریۂ پاکستان اخذ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس سے مراد ایک اسلامی جمہوریہ ہے جو وقت آنے پر شرعی قوانین پر چلنے والی اسلامی ریاست میں ڈھل جائے گی ۔
اُسی برس، 1967 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دانشورحنیف رامے (دائیں طرف) نے وضاحت کی کہ نظریۂ پاکستان سے مرادیہ ہے کہ ملک کو عوامی جمہوریت اور اسلام کے سماجی فلاح کے تصورات کے مطابق چلایا جائے گا ۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ 1960 ء کی دہائی میں نظریۂ پاکستان سکول کی درسی کتب میں نمودار نہیں ہوا تھا۔
1971 ء میں مشرقی پاکستان میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران،قانون دان اور مفکر، جسٹس جاوید اقبال نے کتاب شائع کی، ’’دی آئیڈیالوجی آف پاکستان‘‘۔ اُنھوں نے یہ کتاب 1959 ء میں لکھنا شروع کی جبکہ اُنہیں ایوب خان نے مذکورہ سوالنامہ بھیجاتھا۔ اس کتاب میں جسٹس جاوید اقبال نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایوب خان اور جماعتِ اسلامی، دونوں کی نظریۂ پاکستان کی تشریح اپنے اپنے ذاتی ایجنڈے سے مطابقت رکھتی ہے ، اور اس کا محمد اقبال اور مسٹر جناح کے ریاست کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ۔ نیز یہ تشریحات عقیدے اور ریاست کے پیچیدہ تر تصورات کا احاطہ نہیں کرتیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کتاب کا پیش لفظ خود ایوب خان نے تحریر کیا، جنہیں 1969 ء میں طلبہ اور مزدوروں کی تحریک نے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیاتھا۔
1972-73ء میں اصطلاح ’’نظریۂ پاکستان ‘‘ پہلی مرتبہ درسی کتب میں نمودار ہوئی ۔ اسی دور میں حکومت ( جواب بھٹو کی پی پی پی کے پاس تھی) نے ایک نیا مضمون ’’مطالعہ پاکستان ‘‘بھی متعارف کرایا۔ اس کا مقصد 1971 ء کے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد قیام پاکستان کے جواز کو تقویت دینا تھا۔
پی پی پی کی بھٹو حکومت کے دور(1972-77) میں ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کی اصطلاح درسی کتب اورقومی اسمبلی میں ہونے والی بحث میں اکثر نمودار ہونے لگی تھی۔ اس کی تشریح جناح کے دوقومی نظریے اور اسلام کے سوشلسٹ تصورات کی روشنی میں کی گئی تھی ۔
جنرل ضیا کی آمریت (1977-1988)کے دوران ’’نظریۂ پاکستان ‘‘ کا مفہوم مکمل تبدیل کرکے ایک اسے ایک مسلمہ اصول کی شکل دے دی گئی ۔ ضیا حکومت کی رجعت پسندی (سماجی ترقی کے خلاف ) نے اس تصور پر گہر امذہبی رنگ چڑھا دیا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے یہی رجعت پسندی اس نظریہ کا اٹوٹ انگ ہے ۔
بہت سوں نے ضیا کے تشریح کردہ ’’نظریۂ پاکستان ‘‘پر تنقید کی ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس نظریے کی یک طرفہ اوردقیانوسی تشریح پاکستان کے نسلی، مذہبی اور مسلکی تنوع سے مناسبت نہیں رکھتی ۔ ضیا کے ناقدین کا کہنا ہے کہ نظریۂ پاکستان کی یہ تشریح مسٹر جناح کے اسلام اور ریاست کے جدید تصور کے برعکس ہے ۔
ضیا کے حامیوں کا دعویٰ رہا ہے کہ یہ جناح کی تخلیق کردہ ’’اسلامی جمہوریہ ‘‘ کے ارتقاع کا نقطۂ عروج ہے ۔
2013 ء میں نئے آرمی چیف، جنرل راحیل شریف ، جنہیں نواز شریف نے اس عہدے پر ترقی دی تھی ،نے بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کو دیکھتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج کی فکری اور نظریاتی جہت بتدریج تبدیل کرنا شروع کردی۔ اُنھوں نے اسے ایک پیشہ ور اور عملیت پسند لڑاکا فوج بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے ۔ یہ سلسلہ موجودہ آرمی چیف، جنرل باجوہ کی قیادت میں بھی جاری ہے ۔
جنرل راحیل کی پیش رفت نے وفاقی حکومت کو بھی ’’متعدل مزاج‘‘ اور ’’جدید‘‘ انداز فکر اپنانے کی ترغیب دی۔
سب سے جاندار اقدام سندھ میں دیکھنے میں آیا جہاں نصابی کتب کو تبدیل کردیا گیا۔
ان اقدامات کے ردعمل میں معاشرے اور سیاست کے وہ دھڑے، جو 1980 ء کی دہائی سے نظریے کے اس بیانیے سے فائدہ اٹھارہے تھے، اس پیش رفت کوروکنے اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ یہ طبقات معاشرے کو جمود سے نکلتے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اُن کا وجود ایک ترقی پسند معاشرے میں برقرار نہیں رہ سکتا۔