اس نے کئی وفعہ کوشش کی تھی کہ تین کونوں کی جھاڑ پونچھ کر کے ایک جانب دھکیل سکے تاکہ دو کونوں میں کچھ گنجائش امید کی بیل اور اعتبار کے آئینے کے واسطے نکل آئے لیکن ایسے بند کمرے میں کوئی ہری بیل کیسے بانہیں کھولے پھیل سکتی تھی جس میں کھڑکی اور روشندان ہی نہ رکھے گئے ہوں اور دروازہ۔۔۔ دروازہ تو وہی چوتھا کونہ تھا جہاں نظر اندازی کا کرب سہتی ایک کُرلاتی سسکی ہمیشہ کے لئے گاڑ دی گئی تھی۔
کہنے میں کیا جاتا ہے کہ "دروازہ کھولو اور تازہ ہوا اندر آنے دو"۔ کہنے والے کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ دروازہ کھولنے پر ایک تاریک سناٹے سے اٹی راہداری کے اختتام پر پانچ ڈور لاکس والے دو آہنی دروازے پڑتے تھے۔ اور دروازہ تو وہی سسکی کی ملکیت تھا۔
اس کے ارد گرد لوگ اپنے سروائیول کی داستانیں کس قدر آسانی سے بیان کرطدینے کی ہمت رکھتے تھے اور وہ زندگی کی اُس ایک ہچکی کو، جو کب کی بیت چکی تھی، لکھ کر آزاد کرنے کا رسک لینے کو تیار نہیں کہ پھر تین اطراف میں بسنے کو کچھ بچے گا ہی نہیں۔ نئے پن کی عادت اس کو ایک زمانے سے تھی ہی نہیں کہ زندگی کے میلے سے کچھ بھی نیا خرید کر لائے اور کمرہ سجا لے۔ پھر اتنی تنہائی میں تو کسی رگ کے کٹ جانے پر سیپٹک ہی پھیلتا۔ یوں بھی جب زندگی آپ پر بیتتی چلی جاتی ہے تو اس کے دوہے، گیت اور نوحے سن کر داد دینے اور آہ بھرنے والوں کو بہت دن بعد وہ سکرپٹ ہاتھ لگ جاتا ہے جس میں وہ من مرضی کے مفہوم تلاش کر سفاک ردوبدل کے ساتھ نشتر چبھونے کی جگہ چُننے جیسی سہولت حاصل کر لیتے ہیں۔
ایک دفعہ کسی نے بہت سمجھایا کہ ضروری نہیں اعتبار کا آئینہ کسی کونے میں ہی رکھو۔ یہ درمیان میں اتنی کھنکتی کھوکھلی جگہ ہے یہیں ایڈجسٹ کر لو۔ لیکن کہنے میں کیا جاتا ہے۔ کانچ سے تو سیپٹک کی بھی نوبت نہیں آتی بس چکنا چور ہوکر آنکھوں، پیروں اور آبلوں سے بھری روح تک سب کاٹتا چلا جائے گا۔ چوتھا کونا اس کی آخری ہچکی سے پُر ہو سکتا ہے۔ پھر شاید بیمار کو بےوجہ قرار آ جائے لیکن اس کو ایسے گاڑھے لال "قرار" سے خوف تھا۔ یہ خوف کی چھت سرکنے اور چِھن جانے سے بچاتے طویل جنگ کا بوڑھا مسافر آج چوتھے کونے میں سسکنے کو دھکیل دیا گیا تھا۔