حکومت پنجاب کا ’تعلیم گھر‘ کیبل چینل ایک منفرد اور انوکھا تجربہ

11:51 AM, 11 Apr, 2020

مرزا عامر جرال
تعلیم کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی کا راز ہے، اگر تعلیم و تربیت کو زندگی سے نکال دیا جائے تو زندگی بے ڈھنگ سی دکھائی دے گی۔ اسی لئے ہر قوم اور ملک نے تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی ہے۔ لیکن آج کل ہر ملک کرونا جیسی مہلک وبا کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا لاک ڈاؤن ہے۔ اس وبا نے ہر شعبہ زندگی کیساتھ تعلیم کے شعبے کو بھی متاثر کیا ہے۔

پاکستان میں بھی جہاں دیگر شعبے متاثر ہوئے وہاں شعبہ تعلیم پر اس کے بہت منفی اثرات پڑے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب جس کی آبادی تقریباً 14 کروڑ ہے، اس وقت اس صوبے کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں، سکول ایجوکیشن دیپارٹمنٹ پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق 52470 سکولوں میں پڑھنے والے 12 ملین سے زائد بچے گھروں میں بیٹھے ہیں جبکہ 3 ملین سے زائد اساتذہ تعلیمی فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہیں۔

ایسے حالات میں حکومت پنجاب نے لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اور تمام طلبہ کو گھر تک تعلیمی رسائی یقینی بنانے کیلئے "تعلیم گھر" نامی کیبل چینل، یوٹیوب چینل، ویب سائٹ (www.taleemghar.punjab.gov.pk) اور ایپ لانچ کیے ہیں۔

تعلیم گھر کیبل چینل ایک احسن اقدام ہے، جس کا بنیادی مقصد بچوں کو گھر بیٹھے تعلیم کی رسائی ہے۔ اس کیبل چینل کے ذریعے بڑے منظم انداز میں بذریعہ ویڈیو لیکچرز، صبح 9 بجے سے دوپہر 1 بجے تک، جماعت اول سے جماعت ہشتم تک کے طلبہ کو جنرل نالج، سائنس اور ریاضی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ یہ لیکچرز شام 5 بجے سے رات 9 بجے تک دوبارہ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہر جماعت کا وقت الگ ہے، ایک وقت میں صرف ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ جس کا دورانیہ تیس منٹ ہے۔

مثال کے طور پر اگر بچہ جماعت اول کا طالبعلم ہے تو وہ 9 بجے سے 9:30 تک پڑھے گا اور اگلا آدھا گھنٹہ جماعت دوئم کیلئے مختص ہوگا۔ اسی طرح بالترتیب ہر جماعت کے طلبہ کا تعلیمی وقت 30 منٹ ہے۔ یوں ایک ہی گھر میں رہنے والے مختلف جماعتوں کے طلبہ ایک ہی ٹی وی کے ذریعے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تعلیم گھر یوٹیوب چینل اور ایپ کے ذریعے کسی بھی وقت مطلوبہ لیکچرز دیکھ سکتے ہیں اور ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں۔

متحرک اساتذہ کے ذریعے تعلیم دینے کا یہ طریقہ انسانی ذہن اور نفسیاتی اصولوں کےعین مطابق دلچسپ، منفرد اور معلوماتی ہے جو ہر بچے کی ذہنی استعداد سے مطابقت رکھتا ہے۔ سمعی و بصری آلات کو نہایت ہی پیشہ ورانہ انداز میں بروئے کار لایا گیا ہے کہ جس سے ناصرف بچے بلکہ محترم اساتذہ کرام بھی استفادہ کرسکتے ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور طریقہ تدریس میں نکھار لا سکتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ محترم اساتذہ کرام بھی ان لیکچرز کو ضرور دیکھیں۔

ہر لیکچر کے آخر میں مضمون کے عنوان سے متعلق ایک معلوماتی ویڈیو دکھائی جاتی ہے جو ایک منفرد اور انوکھا تجربہ ہے یعنی جو کچھ پڑھا یا گیا ہے بچے فوراً ہی اسے ذہن نشین کر لیں۔ عام مشاہدہ بھی کریں تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ہم کوئی بھی کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق کوئی کہانی سن لیتے یا ویڈیو فلم دیکھ لیتے ہیں تو وہ ہمیں زیادہ عرصہ تک یاد رہتی ہے۔

عوامی رائے یا رائے عامہ

اگر ہم پنجاب حکومت کے اس اقدام پر عوامی رائے کی بات کریں تو مشاہدے کے مطابق یہاں دو طرح کی رائے ملتی ہے۔ ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اس اقدام کو سراہتے ہیں اور اسے موجودہ وقت اور حالات کی ضرورت کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کچھ والدین اور بعض لوگ اختلافی رائے رکھتے ہیں اور مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بچوں کو ٹی وی کے سامنے پڑھنے کیلئے بٹھانا بہت مشکل ہے کیونکہ بچے بہت شرارتی ہوتے ہیں اور بات بھی نہیں مانتے ہیں، کچھ علاقوں میں کیبل کی سہولت بھی نہیں ہے، بعض مذہبی گھرانوں میں تو ٹی وی تک نہیں ہے اور ان پڑھ لوگ سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز استعمال نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔

ان کی رائے اپنی جگہ لیکن میں یہاں آپ سے مخاطب ہو کر کہنا چاہتا ہوں آپ خود سوچیے اگر ایک استاد اپنی جماعت کے تیس، چالیس بچوں کو بیک وقت چھے گھنٹے تک نظم و ضبط کو برقرار رکھے ہوئے تعلیم دے سکتا ہے تو والدین کیلئے اپنے بچوں کو گھر بٹھا کر تعلیم دلوانا مشکل ہے؟ یقیناً نہیں۔

اس دور میں ہر گھر میں سمارٹ فون ہے۔ کہا جاتا ہے یہ دور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو ڈیٹا پورٹل اور ڈیجیٹل پاکستان 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 161 ملین سے زائد لوگ سمارٹ فونز، 76 ملین سے زائد لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد 37 ملین سے زائد ہے۔ اس طرح بچے یوٹیوب چینل اور ایپ کے ذریعے آسانی سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

حکومت پنجاب کا یہ اقدام موجودہ وقت میں کسی نعمت سے کم نہیں لیکن پھر بھی ہر کام میں بہتری کی گنجائش ضرور رہتی ہے۔
مزیدخبریں