عالمی وبا کے عروج پر ایسٹر کا تہوار آچکا ہے۔ دنیا بھر میں آج ایسٹر منایا جا رہا ہے۔ خوشیوں اور امید کا پیغام دیتا یہ تہوار اس بار شاید پاکستانی مسیحی برادری کے لئے ہمیشہ جیسا نہیں ہوگا۔ مسیحی برادری پاکستان کی کل آبادی کا 2 فیصد ہے۔ اور ملک میں صفائی ستھرائی سے متعلق تمام کاموں کے لئے زیادہ تر اسی برادری سے تعلق رکھنے والی افرادی قوت کام کرتی ہے۔ یہ بتا چکنے کے بعد شاید یہ کہنا اضافی ہی ہوگا کہ مسیحی برادری پاکستان میں عمومی طور پر معاشرتی و معاشی لحاظ سے سب سے نچلے درجے پر ہے۔ اور یہی حقیقیت انہیں کرونا کے اثرات کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے متاثر ہونے والا طبقہ بناتی ہے۔
بڑی تعداد میں بے روزگار ہوجانے والے مسیحی محنت کشوں کے لئے تو شاید اس بار عید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ ان سے بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہیں، کہیں جانے کی فرمائش کر رہے ہیں تاہم ان کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لئے دلاسے ہیں اور اگر بچے پھر بھی نہ مانیں تو پھر حالات کی سنگینی کی رسید کے طور پر دکھ، پریشانی اور زندگی سے بے زاری کی تصویر بنے ان کے چہرے۔۔۔
اسلام آباد کے پوش علاقے میں واقع فارم ہاوس میں کام کرنے والے عابد گل کو انکی نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انکا کام فارم ہاؤس میں ہونے والی پارٹیوں کے بعد صفائی کرنا تھا۔ اب سب ملکان گھبراتے ہیں کہ وہ کہیں کرونا ان تک نہ پہنچا دیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں اچانک نکال دیا گیا جب کہ کسی قسم کا معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انکی کونسی عید؟ بچے کپڑے مانگتے ہیں میں نے انہیں بتایا ہے کہ اس بار ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے تاہم وہ بچے ہیں وبا کیا ہوتی ہے اور معاشی نقصان کیا ہوتا ہے انہیں نہیں معلوم۔۔
فیصل آباد کے رہائشی ایک اور مسیحی محنت کش مینیول مسیح جن کو حال ہی میں اپنی ریستوران میں بیرے کی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے، کہتے ہیں کہ اس وبا نے تو ہم سے وہ دو نوالے بھی چھین لئے جو پہلے ہمارے پاس تھے۔ یہ عید تو ہمیشہ سے نئے جنم ، خوشیوں اور امید کا پیغام لاتی ہے مگر اس بار شاید یہ مایوسی اور اداسی کے ماحول میں گم ہوجائے گی۔
مسیحی برادری کی اکثریت ایک یا زیادہ سے زیادہ دو کمروں کے گھروں میں رہائش پذیر ہے۔ یہ اکثر بڑے شہروں کے نواح میں قائم اپنی گنجان آباد بستیوں میں رہتے ہیں۔ معاشی تباہ حالی کے باعث یہ لوگ گھروں میں بند نہیں رہ سکتے اور کام پر نہ بھی جائیں راشن کی لائنوں میں لگنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور اس طرح یہ آبادیاں اپنی گنجانیت اور معاشی مجبوریوں کے لحاظ سے کرونا کا آسان ہدف ہیں۔
لاہور کے جوشووا مسیح پیشے کے اعتبار سے ایک حجام ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی دوکان مسلسل بند ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے کئی رشتہ داروں میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ جوشوا کہتے ہیں کہ ان کے رشتہ داروں میں کرونا سماجی فاصلہ نہ رکھنے کے باعث پھیلا ہے۔ 'لیکن میں انکو اس کا قصوروار نہیں سمجھتا۔ پیٹ کی آگ آپ کو موت کے منہ میں بھی جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ حکومت ہم غریبوں کے لئے کچھ نہیں کر رہی۔ اور وہ کچھ کرنا چاہے تو بھی کیا کر لے گی'۔ وہ کہتے ہیں 'میرا کام خوب چلتا تھا چار پیسے جوڑ چکا ہوں اس لئے ایک دو ماہ تو گزار لوں گا۔ لیکن اگر اسکے بعد بھی سب کچھ پہلے جیسا نہ ہوا تو سمجھ سے باہر ہے کہ کہاں جاؤں گا؟'
جوشوا بھولے پن میں سہی مگر موقع پر خوب کہتے ہیں کہ اس عید کوعید قیامت المسیح کہتے ہیں۔ 'لیکن کرونا کی وبا کے درمیان آئی اس عید پر سمجھ نہیں آرہی کہ یہ موقع عید ہے یا قیامت '۔ تاہم وہ امید کرتے ہیں کہ جلد یہ سب ٹھیک ہوجائے گا اور دنیا کی مسکان لوٹ آئے گی۔
انسانوں کے لیے اُمید اور زندگی کا پیغام لئے ابن مریم کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی یہ عید ایسے موقع پر آئی ہے جب رنگ نسل مذہب اور عقیدے سے قطع نظر تمام انسانیت اجتماعی مایوسی اور پریشانی میں کسی مسیحا کی منتظر ہے۔