تفصیلات کے مطابق کنیزان بی بی 16 سال کی تھیں اور ایک گھر میں بطور ملازمہ کام کر رہی تھیں۔ اسی دوران ان پر اپنے مالک کی بیوی اور پانچ بچوں کے قتل کا الزام عائد کیا گیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس کے اپنے مالک کے ساتھ تعلقات تھے اور دونوں نے مل کر قتل کیے، اسی الزام میں مالک کو بھی گرفتار کیا گیا اور بعد میں اسے 6 قتلوں کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔
2003 میں پھانسی کی سزا پر عملدرآمد ہونے تک کنیزاں بی بی کے مالک خان محمد کا یہی مؤقف تھا کہ اس کا اپنی ملازمہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں نے کسی کو قتل کیا ہے۔ خان محمد کا کہنا تھا کہ اس کی بیوی اور بچوں کو اس کے لواحقین کے ساتھ طویل عرصے سے جاری زمین کے تنازعہ میں قتل کیا گیا ہے۔ ان تمام ثبوتوں اور شواہد کے باوجود سن 2000 سے شیزوفرینیا میں مبتلا کنیزاں بی بی 29 سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
دنیا بھر میں سزائے موت کے قیدیوں کے لیے کام کرنے والا کارنیل سینٹر، جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے ساتھ مل کر کنیزاں بی بی کی رہائی کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم ان کوششوں کو کامیابی کے قریب ایک بڑا دھچکا کرونا وائرس کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لاک ڈاؤن نے کنیزاں بی بی کی رہائی کو بھی متاثر کیا ہے جو پاکستان کی بھیڑ بھری جیلوں میں قید 600 سے زیادہ ذہنی مریضوں میں سے ایک ہیں۔
کنیزاں بی بی کے والد نے 2016 میں اپنی موت سے قبل اپنی بیٹی کو آزاد کروانے کی آخری کوشش بھی کی تھی، جب انہوں نے صدر پاکستان کو خط لکھ کر بیٹی کی رہائی کی التجا کی تھی جس کا کبھی جواب نہیں ملا۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے رواں ہفتے پاکستانی جیلوں میں COVID-19 کے کیسوں میں تیزی سے اضافے کا انتباہ کیا تھا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے رواں ہفتے حالات کو آسان بنانے کے لئے کچھ ذہنی مریضوں اور معذور قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن صرف وہی جن کی سزا تین سال سے کم ہے۔ اس عدالتی حکم نامے میں بھی کنیزاں بی بی کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔