اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے شہری مولوی اقبال حیدر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار مولوی اقبال حیدر نے مؤقف اختیار کیا کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کےخلاف تحریک عدم اعتمادجمع کرائی جس پر عمران خان پہلے خاموش رہے، پھر لیٹر دکھا کر کہا کہ ان کی حکومت کےخلاف سازش کی گئی۔
درخواست میں کہاگیا کہ سفارتی کیبل کی امریکی حکام نے تردید کی ہے لہٰذا اس لیٹر کی تحقیقات ہونی چاہئیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اس معاملے کو سیاسی کیوں بنا رہے ہیں؟ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے، آپ کیوں عدالت آئے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کی عدالت سےکیا استدعا ہے؟ جس پر مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا لہٰذا معاملے کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا جائے، سیکرٹری داخلہ پابند ہیں کہ مبینہ مراسلےکی تحقیقات کرائیں، وفاق کی ذمہ داری تھی کہ معاملے کی تحقیقات کراتے اور معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لےکر جاتے۔
مولوی اقبال حیدر نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی سمیت ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور امریکا میں پاکستان کےسابق سفیر اسد مجید کےنام بھی ای سی ایل میں شامل کیے جائیں، متعلقہ افراد کےخلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلانےکےلیے شکایت ٹرائل کورٹ کو بھجوانے کا حکم دیا جائے۔
مولوی اقبال حیدر نے عدالت میں کہا کہ جنرل پرویز مشرف کےخلاف بھی غداری کیس میں ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا اور میری ہی درخواست پر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان منتخب وزیراعظم تھے، ان کا پرویز مشرف کے ساتھ موازنہ نہ کریں۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے مسترد کردیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 5 صفحات پرمشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے مبینہ مراسلےکی تحقیقات کی درخواست مسترد کردی جب کہ عدالت نے ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔