پچھلی حکومتوں میں بھی ڈالروں کے تحفے ہوں یا پھر دیگر مفادات پاکستانی حکمران سعودی حمایت کے لئے کوشاں ہی رہے۔ یہی حال موجودہ حکومت کا تھا کہ آتے ہی ادھار تیل اور کرنٹ اکاونٹ کو سنبھالنے کے لئے اربوں ڈالر حاصل کرنے کے لئے سعودی لائف لائن استعمال کیا گیا۔ پاکستان اور سعدی عرب میں اس حوالے سے 2018 میں جو معاہدہ طے پایا تھا اس معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ تاخیر سے ادائیگی کی بنیاد پر سعودی عرب پاکستان کو سالانہ 3 ارب ڈالر مالیت کا تیل دے گا اور یہ سلسلہ 3 سال تک جاری رہے گا جس کے بعد اس پر دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔امدادی پیکج کے تحت سعودی حکومت نے 3 ارب ڈالر بھی پاکستان کے اکاؤنٹ میں رکھوانے تھے جن میں سے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط 19 نومبر 2018 ، دوسری قسط 14 دسمبر 2018 اور تیسری قسط 25 جنوری 2019 کو موصول ہوئی تھی۔
ابھی تک تو سب کچھ درست چل رہا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے متنازعہ انٹرویو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لئے حساس ہے۔ خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا، میں او آئی سی کو بصد احترام کہہ رہا ہوں کہ ہماری کشمیر پر امیدیں زیادہ ہیں۔ سعودی عرب کا اثر و رسوخ او آئی سی پر بہت ہی زیادہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اور اگر یہ نہ بلایا گیا تو پاکستان معاملات اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پھر وزیر اعظم عمران خان کو کہیں گے کہ وہ ان ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلائیں جو کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اے آر وائی کے شو میں دیئے گئے اس انٹرویو میں کہا کہ کشمیر کے معاملے پر وہ پھر آگے جائیں گے ان ( سعودی عرب اور عرب ممالک) کے ساتھ یا انکے بغیر۔
اس انٹرویو کے بارے میں دفتر خارجہ کی ترجمان نے بھی کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ نے جو کچھ کہا وہ پاکستانی عوام کی ترجمانی ہے۔ ابھی اس کی باز گشت تھمی نہ تھی کہ خبر آئی کہ سعودی عرب نے تین ارب ڈالر میں سے 1 ارب ڈالر پاکستان سے زبردستی طور پر واپس لئے ہیں جو پاکستان نے چین سے لیکر سعودی عرب کو واپس کیئے۔ اس پر بھی شاہ محمود قریشی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سعودی معیشت اس وقت مشکل میں ہے ۔ انہوں نے ہماری مشکلات کو سمجھا، ہم انکی مجبوریاں سمجھتے ہیں۔
ابھی ان ڈالروں کا سوگ ہی منایا جا رہا تھا کہ سعودی عرب نے اچانک ادھار تیل کی سہولت بھی واپس لے لی۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب سے 3 ارب 20کروڑ ڈالر کا تیل ادھار ملنےکی سہولت ایک سال کے لیے تھی جس کی تجدید ہوسکتی تھی۔ تاہم آزاد میڈیا ریکارڈز اور سرکاری اعلامیوں کے مطابق یہ سہولت مکمل تین سال کے لئے تھی لہذٰہ جو کچھ ہوا یہ اچانک ہوا اور طے شدہ نہیں تھا۔
اس حوالے سے مڈل ایسٹ مانیٹر نامی جریدے نے سعودی ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب پاکستانی وزیر خارجہ کے بیانات پر شدید برہم ہے اور یہی بیانات ہی تھے جو سعودی معاشی پیکج کی اچانک معطلی کی وجہ بنے ۔ جریدے نے لکھا کہ یہ سب پاکستان سعودیہ تعلقات میں بگاڑ کا ایک نیا سنگ میل ہے اور معاشی بحران سے نبرد آزما پاکستان کے لئے اس کے مضمرات دور رس ہوں گے۔
جریدے نے اپنی رپورٹ میں یاد کرایا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت سعودی دباؤ پر ہی ایسے مسلم ممالک کے سربراہ اجلاس میں طے شدہ شرکت سے انکار ی ہوگئی تھی جو کشمیر پر اسکا کھل کر ساتھ دے رہے تھے۔ جریدے کا اشارہ گزشتہ سال ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی میزبانی میں ہونے والے کولالمپور سمٹ کی طرف تھا جس میں ترکی، ملائشیا اور ایران شریک تھے جبکہ اس میں مسلم امہ کو درپیش مسائل پر غور کیا جانا تھا۔ سعودی عرب نے اس اجلاس کو اپنے خلاف قرار دیا ۔ وزیر اعظم عمران خان آخری لمحے پر اس اجلاس میں شامل نہیں ہوئے جس کے بارے میں ترک صدر طیب اردگان اور خود وزیر اعظم عمران خان نے کھلم کھلا اظہار کیا تھا۔
جریدے کے مطابق یہ صورتحال پاکستان کے لئے معاشی و خارجی طور پر خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔