نیا دور میڈیا کو جلوس میں شریک ایک عینی شاہد نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ 200 لوگوں پر مشتمل ایک ماتمی جلوس ترلائی سے گزر رہا تھا کہ سو سے زیادہ لوگوں نے اس پر پتھراؤ شروع کر دہیا اور شیعہ مسلک کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگائے جس کی وجہ سے جلوس میں شریک لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا۔
https://twitter.com/Mohtermalaila/status/1425160535906131969
عینی شاہد کے مطابق جلوس کے اطراف میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موجود تھی لیکن اس کے باوجود بھی مظاہرین پر پتھراؤ کیا گیا اور شیعہ مسلک کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ عینی شاہد کے مطابق پولیس اور رینجرز نے حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کی مگر پھر بھی وہ آگے آتے رہے اور یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
عینی شاہد نے الزام لگایا کہ کچھ روز قبل اس علاقے میں ایک شیعہ مخالف عالم کو مسجد میں تقریر کے لئے بلایا گیا تھا اور اس خطاب کے حوالے سے علاقے میں پمفلٹس بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ نیا دور میڈیا نے پمفلٹس فراہم کرنے کی استدعا کی مگر انھوں نے پمفلٹس کے حوالے سے کوئی شواہد فراہم نہیں کئے۔
دوسری جانب ڈی سی اسلام آباد نے اس واقعے سے متعلق ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ یہ سچ نہیں، تاہم انہوں نے اس کی مکمل تفصیل یا معلومات فراہم نہیں کیں۔
https://twitter.com/dcislamabad/status/1425308838132129795
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کالعدم اہل سنت والجماعت کے سربراہ اورنگزیب فاروقی کو نماز جمعہ میں ایک تقریر کے لئے بلایا گیا تھا جہاں انھوں نے نفرت انگیز تقریریں کی مگر ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے تاحال کوئی ایکشن سامنے نہیں آیا۔
ایس پی رورل اسلام آباد نوشیروان نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ رات کو راجہ ذوالفقارکی قیادت میں ایک ماتمی جلوس جاری تھا کہ قریب میں واقع مسجد عائشہ صدیقہ سے 40 سے 50 لوگ نکل آئے، انہوں نے جلوس کی طرف پتھر پھینکے اور نفرت انگیز نعرے لگائے مگر پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے حالات کو قابو پا لیا۔ ایس پی رورل نے جلوس میں خاتون کی زخمی ہونے کی تردید کی۔
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا نفرت انگیز نعرے لگانے اور پتھراؤ کرنے والے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔
کیا محرم الحرام کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے کوئی مربوط پالیسی تیار کی ہے؟ اس پر موقف لینے کے لئے نیا دور میڈیا نے اسلام آباد پولیس کے ترجمان ڈاکٹر سید مصطفی تنویر اور ضلعی انتظامیہ کے ترجمان سے موقف جاننے کے لئے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔