فن تقریر اور جوش خطابت میں بلاول اپنے اجداد کے برعکس ہیں اور سامعین کو جوش دلانے کی بجائے محفل کو قہقہہ بار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک جملہ کچھ یوں بولا کہ فدوی جیسا غیر سیاسی پاکستانی بھی فریاد پر مجبور ہو گیا۔ موصوف گویا ہوئے کہ 'ایک شب کا اعتدال پچھتر سال کے گناہوں کا مداوا نہیں کر سکتا'۔ ریختہ سے محبت میں متن کو برقرار رکھتے ہوئے الفاظ تبدیل کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔ بلاول کی اردو لفظ بلفظ نقل کرکے ڈاکٹر عبدالحق کی روح کو مزید تکلیف دینا مناسب نہیں ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے جناب خارجی وزیر کہ پچھتر سال کی ادارہ جاتی مداخلت کا رونا مناسب تب ہو جب آپ اور آپ کے حواری گذشتہ نصف صدی پر محیط اپنی اداوں پر غور کریں۔ قائد عوام جناب بھٹو بذات خود سول مارشل لا گورنر راج سیاسی مخالفین کو پس زندان رکھنے کا شہرہ رکھتے ہیں۔
افغانستان میں جہادی دستوں کی تخلیق اور ہمسایہ ملک میں مداخلت کا آغاز بھی موصوف نے ہی کیا تھا۔ اخلاقیات کا پاٹ پڑھانے والے سیاسی پستہ قد شخصیات کو بیان داغنے سے پہلے بھٹو صاحب کا مشہور زمانہ زریں قول 'جہنم میں جائیں سور کے بچے' فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
ہماری جمہوریت وزارت عظمیٰ کے حصول کے لیے اداروں کی مدد کے حصول اور مسند اقتدار پر قابض رہنے کا نام ہے۔ اس میں حق حکمرانی عوامی انتخابات میں اداراتی مداخلت کے ذریعہ حاصل کر کے بادشاہی طرز حکمرانی میں بدل دیا جاتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے نصف صدی عوام سے جمہوریت کے نام پر ایک گھنائونا مذاق کیا ہے۔ پارلیمان میں کھڑے ہو کر اپنے درباریوں اور ایک جعلی قائد حزب اختلاف کو وعظ سنانے سے نصف صدی پر محیط یہ داغ دھل نہیں جاتے جناب والا ہمارے سیاسی زعما جو حد درجہ ڈھٹائی سے افواج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع پر بلبلاتے اور جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں خود اپنی جماعتوں میں تاحیات سربراہی کے خواہاں ہیں۔
اور بات یہیں تمام نہیں ہوتی۔ بقول مریم نواز صاحبہ کے نسلیں تیار ہیں تاکہ جس جمہوریت کو عوام الناس کے لیے ایک متبرک اور مقدس نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہی بد ذات جمہوریت غلطی سے بھی جماعت کے اندرونی معاملات میں دخیل نہ ہو پائے۔
درست بات ہے جی کہ اگر باچا خان کی چوتھی نسل ان کی جماعت کی رہبری کر رہی ہے تو بھٹو صاحب اور میاں صاحب کا خاندان ان سے کم جمہوی تو نہیں۔ ان کو بھی مسند اقتدار سے ملک کی خدمت کا موقع ملنا فرض ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان خاندانوں کی خدمت خلق اقتدار کے حصول سے مشروط ہے۔ اگر خلق کا جھکائو کسی اور جماعت کی جانب ہو تو ایسی خلق خدمت کے قابل ہی نہیں۔ بقول ارسطو عصر جناب احسن اقبال کے ان کے سیاسی حریف عوام کو احمق بنانے کا گر جانتے ہیں۔ تو ہمارے سیاستدانوں کی جمہوریت وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں جمہور ان کے اقتدار کی راہ میں حائل ہو۔
ہمارے جمہوری رہنمائوں نے جمہوری جماعتوں میں جمہوریت پر پابندی لگا کر خود کو ایک بے ہنگم ہجوم میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہر جماعت کا تاحیات سربراہ ایک جمہوریت پسند سیاستدان سے زیاہ ظل الہیٰ کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر ہر کلمہ حق کہنے سے پہلے جان کی امان مانگنا ضروری ہو جاتا ہے۔
اس جمہوری بادشاہ کے گرد ایک درباریوں کا موقع پرست اور موقع شناس گروہ بساط کے مطابق جمہوریت کے فضائل اور وسائل سے مستفید ہوتا ہے اور یہ بے ترتیب بے ہنگم گروہ کسی طور بھی ایک منظم ادارے کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
جب سیاسی جماعتوں کے سربراہ خود جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے تو انہیں اقتدار کی منزل کا دروازہ عسکری راہداریوں سے ہی نظر آتا ہے اور عسکریت کی خوشنودی کے لیے موجودہ وزیراعظم کی طرح وہ اتنے جتن کرتے ہیں جو مجنون لیلیٰ کے لیے بھی نہ کر سکا۔
فدوی کی ناچیز رائے میں اقربا پروری اور موروثی سیاست کے سب سے بڑے علمبردار خارجی وزیر سے درخواست کی جانی چاہیے کہ آئندہ جوش ظرافت میں اگر ملک کے سب سے فعال اور منظم ادارے پر طنز کرنے کی خواہش ہو تو اس سے پہلے جناب اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں۔ شکریہ