اپنے وی لاگ میں رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ عمران خان جب اقتدار میں تھے تو دعویٰ کرتے تھے کہ میں ہی اسٹیبلشمنٹ کیلئے آخری آپشن ہوں۔ اگر کوئی دوسرا ہے تو اسے لے کر آئیں۔ ملک تو میرے ذریعے ہی چلانا پڑے گا۔ لیکن وقت کا پہیہ گھوما اور یہی بات اب حکمران اتحاد سوچ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اتنا خلا پیدا ہو چکا ہے کہ ان کے علاوہ اب کوئی اور آپشن بچا ہی نہیں ہے۔
رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے جتنی دور چلی گئی ہے، اس سے لگتا یہی ہے کہ حکمران اتحاد ہی دوبارہ اقتدار میں آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے پرانے وی لاگ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ مجھے لگتا تھا کہ پی ٹی آئی کوئی بڑا بلنڈر مارے گی۔ عمران خان اور ان کے ساتھی بیانات پر بیانات دیتے رہے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے کوئی ری ایکشن نہیں دیا۔ پی ٹی آئی قیادت سمجھ رہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کو اب ہماری شرائط پر ہم سے بات کرنا پڑے گی۔ شروعات میں یہ حکمت عملی بھی کامیاب رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے دبائو میں آکر جلد الیکشن کرانے پر راضی ہو گئی تھی لیکن انھیں سمجھایا گیا کہ وہ تھوڑا صبر کریں ملک کے معاشی حالات نارمل ہونے دیں۔ آئی ایم ایف کیساتھ ڈیل طے ہو جائے، ملک میں پیسہ آجائے تو یہ معاملہ دیکھیں گے لیکن عمران خان نہیں مانے کیونکہ ان کے ذہن میں تھا کہ اگر میں نے ڈھیل دیدی تو وقت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اسلام آباد دھرنا موخر کرنے کا کہا گیا تھا لیکن انہوں نے بات نہیں مانی اور 25 مئی کو آنے کا اعلان کر دیا۔ میری اطلاعات کہ مطابق یہی وہ وقت تھا جب اسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان دوریاں بڑھیں اور اختلافات شدید ہو گئے۔ رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو لگا کہ ملک نہیں بلکہ اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنا عمران خان کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔