ذلفی بخاری اور علیم خان کے مقدمات میں انہیں رسمی طور پر طلب کر لیا جاتا ہے
نیب میں اسی قسم کے کیسز تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں علیم خان، پرویز خٹک، ذلفی بخاری کے خلاف بھی موجود ہیں لیکن حکمران جماعت سے تعلق ہونے کے باعث ان کے کیسز نیب میں التوا کا شکار ہیں اور نیب کا ادارہ انہیں ان کیسوں میں گرفتار کرنے کے بجائے محض رسمی طور پر کبھی کبھار چائے پلانے کیلئے اپنے دفتر طلب کر لیتا ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں پر ایک ہی جیسی نوعیت کے الزامات کی موجودگی کے باوجود نیب کا مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے خلاف امتیازی برتاؤ صاف نظر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دن بدن یہ ادارہ اپنی ساکھ کمزور کرنے کا باعث بنتا جا رہا ہے۔
موجودہ سیاسی نظام کی بساط بہت تیزی سے سے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے
کسی بھی جمہوری معاشرے میں اداروں کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا اور اگر ادارے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کی خاطر استعمال کیے جائیں تو پھر اس نظام کو جمہوریت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس بھونڈے انداز میں پہلے عدلیہ اور اب نیب کے ادارے کو محض مسلم لیگ نواز کو انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام کی بساط بہت تیزی سے سے اپنے انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف جو کہ کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کو ختم کرنے کے منصوبے پر من و عن عملدرآمد کروا رہی ہے وہ اس بات سے بالکل بے خبر دکھائی دیتی ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کی خواہش میں وہ خود اس جمہوری شاخ کو کمزور کر رہی ہے جس پر خود اس کا اپنا سیاسی نشیمن بھی موجود ہے۔
https://twitter.com/pmln_org/status/1072420460732788738
سعد رفیق کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ نواز کا بیانیہ مزید تقویت پائے گا
اگر عمران خان اور ان کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ مقتدر قوتوں کی مدد سے وہ مسلم لیگ نواز کو دبا کر ایک کمزور اپوزیشن کی موجودگی میں آرام سے اپنی حکومت کی مدت پوری کر لیں گے تو وہ بالکل غلطی پر ہیں اور سیاسی بساط کی باریکیوں سے ناواقف ہیں۔ سعد رفیق کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ نواز کا یہ بیانیہ مزید تقویت پائے گا کہ احتساب کا سارا کھیل مسلم لیگ نواز کو سیاسی میدان میں شکست نہ دی سکنے کے باعث رچایا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کے ان رہنماؤں کو چن چن کر احتساب کی آڑ میں انقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے جو حکومت وقت کے خلاف مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سعد رفیق اور ان کے بھائی کی گرفتاری کے بعد حمزہ شہباز کو بھی بیرون ملک جانے والی پرواز سے اتار لیا گیا جبکہ مریم اورنگزیب کے خلاف بھی نیب نے کیس کھولنے کا عندیہ دے دیا۔
یہ یکطرفہ احتساب بھی کسی طور ان جماعتوں کے وجود کو مٹا نہ پائے گا
یعنی اب صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے مقبول سیاسی بیانیے کو ہر طرح کی کوشش اور جبر کے بعد بھی کچلنے مییں ناکامی کے بعد سارا زور اس جماعت کے مرکزی قائدین کو نیب کے ذریعے پابند سلاسل کرنے پر لگایا جا رہا ہے۔ جو قوتیں یہ کھیل رچا رہی ہیں وہ تو خیر پاکستان میں ہمیشہ سے ایسے ہی کھیل رچاتی آئی ہیں لیکن تحریک انصاف اس امر کا ادراک کرنے سے بالکل قاصر ہے کہ مشرف دور کی مسلم لیگ ق کی مانند اسے بھی جمہوری نظام کو کمزور کرنے اور طاقت کے توازن کے پلڑے کو ان قوتوں کی جانب مزید جھکائے رکھنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر ضیاالحق اپنی ساری قوت لگا کر بھی پیپلز پارٹی کو نہ مٹا پایا اور پرویز مشرف تمام تر ظلم و ستم کے باوجود مسلم لیگ کے وجود کو ختم کرنے میں ناکام رہا تو یہ یکطرفہ احتساب بھی کسی طور ان جماعتوں کے وجود کو مٹا نہ پائے گا بلکہ ان کو مزید دوام بخشنے کا باعث بنے گا۔
شاید وہ تاریخ سے انجان ہیں
دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت جو کہ معاشی اور اقتصادی بحرانوں سے نبرد آزما ہونے میں ابھی تک مکمل ناکام نظر آتی ہے اسے اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے باعث بین الاقوامی دنیا میں بھی خفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے اس وقت پاکستان پر نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں اورسیاسی اختلاف رائے رکھنے والوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنتے دیکھ کر یقیناً پاکستان سے متعلق وہ کسی قسم کی "مثبت" رپورٹ تیار نہیں کریں گے۔ یکطرفہ انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وہ رہنما جو اس وقت اپنے ناخداؤں کو خوش کرنے کیلئے یہ بیان داغ رہے ہیں کہ نواز شریف اور اس کی جماعت یا پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مستقبل کی سیاست میں ان کا کوئی حصہ نہیں شاید وہ تاریخ سے انجان ہیں اور سیاست کی باریکیوں سے مکمل طور پر ناواقف۔
https://twitter.com/uzairmalik88/status/1072483454502232064
سعد رفیق، جاوید ہاشمی، مشاہد اللّٰہ خان کو غیر انسانی تشدد اور سلوک کا نشانہ بنتے دیکھ رکھا ہے
مشرف دور میں راقم نے اپنی گنہگار آنکھوں سے سعد رفیق، جاوید ہاشمی، مشاہد اللّٰہ خان اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کو چار بائی چار کی کوٹھڑی میں قید غیر انسانی تشدد اور سلوک کا نشانہ بنتے دیکھ رکھا ہے۔ ان رہنماؤں پر تشدد کرنے کے بعد انہیں برہنہ کر کے برف کی سلوں پر لٹا دیا جاتا تھا اور ان سے اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کا کہا جاتا ہے۔ لیکن جبر کا وہ دور ان رہنماؤں کو جھکا نہ پایا اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کمزور ہو پائی۔ نواز شریف اس وقت بھی تاحیات ناہلی کا سامنا کر رہے تھے اور مسلم لیگ ق کے رہنما تحریک انصاف کے رہنماؤں کی مانند گلے پھاڑ کر اعلان کرتے تھے کہ بس اب نواز شریف اور اس کی جماعت کا مستقبل ختم ہو گیا ہے۔
شاید عمران خان کو یہ حقیقت اس دن سمجھ آ جائے گی جب اظہار رائے پر عائد قدغنیں ختم ہوں گی
لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ چند برسوں بعد وہی نواز شریف اور اس کے ساتھی نہ صرف سیاسی میدان میں بھرپور قوت کے ساتھ واپس آئے بلکہ پنجاب جیسے روایتی سٹیٹس کو کے حامی صوبے میں اینٹی سٹیٹس کو بیانیے کی بنیاد رکھنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ وقت بدلتا ہے اور جب یہ بدلتا ہے تو مشرف اور ضیا جیسے بڑے بڑے آمروں کے اقتدار کا سورج پلک جھپکتے میں ڈبو جاتا ہے اور مسلم لیگ ق جیسی کٹھ پتلی جماعتوں کا نام و نشان تک مٹا جاتا ہے۔ شاید عمران خان کو یہ حقیقت اس دن سمجھ آ جائے گی جب پاکستان میں جمہوریت اور اظہار رائے پر عائد قدغنیں ختم ہوں گی اور ایک منصفانہ ماحول میں عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔
رہی بات سعد رفیق کی تو سعد رفیق، خواجہ رفیق مرحوم کا بیٹا ہے
بدقسمتی یہ ہے کہ سیاستدانوں کو عبرت کا نشان بنانے کیلئے عدلیہ اور نیب جیسے اداروں کی ساکھ کو بری طرح مجروح کر دیا گیا ہے۔ رہی بات سعد رفیق کی تو سعد رفیق، خواجہ رفیق مرحوم کا بیٹا ہے جس نے جان دے دی تھی لیکن آمرانہ قوتوں کے آگے جھکا نہیں تھا۔ سعد رفیق مسلم لیگ نواز کے ان رہنماؤں میں بھی شمار ہوتا ہے جس نے ضیا دور میں بھی اس آمر کے ہاتھ ہر بیعت نہیں کی تھی۔ مشرف دور میں جب سعد رفیق کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس کی ماں نے سعد رفیق کو کہا تھا کہ بیٹا تو خواجہ رفیق کا بیٹا ہے معافی مانگ کر گھر واپس آنے کے بجائے عزت سے قید میں مر جانا لیکن آمر کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے باپ کی ناک مت کٹوانا۔ سعد رفیق کییلئے تو قید و بند اور نیب کے کیسز نئے نہیں ہیں کہ وہ پہلے بھی یہ سب کچھ بھگتا چکا ہے لیکن کیا تحریک انصاف کی نرم و نازک اور چونچلوں میں پلی برائلر قیادت وقت بدلنے پر اس طرح کی صعوبتیں برداشت کر پائے گی؟
تحریک انصاف ق لیگ والا کردار ادا کر رہی ہے
اس کا جواب مستقبل قریب میں سب کو مل جائے گا۔ فی الحال بے رحمانہ انتقام کو احتساب قرار دیکر تحریک انصاف موجودہ دور کی مسلم لیگ ق کا فرض انجام دے رہی ہے اور ملکی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیتوں کے فقدان کے باعث انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ جمہوریت اور خود اپنے لئے ایک گڑھا کھودنے میں مصروف ہے۔