انڈس ویلی کی تہذیب اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود بنی نوع انسان کی۔ تاریخی طور پر موجودہ منقسم برصغیر کسی زمانے میں مختلف مذاہب اور قومیتوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ سامراجی، تاریخی اور تجارتی تبدیلیوں کے تناظر میں اس خطے کے سماجی اور آبادیاتی نظام کا شیرازہ بری طرح سے بکھر گیا۔ خطے میں مذہب اور قومیت کی بنیاد پر نئی ریاستوں کے قیام کے باعث مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تفریق کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں پر امن اور ایک دوسرے سے بے پناہ قدریں مشترک رکھنے والی برادریوں کے درمیان بھی تقسیم اور دوریاں پیدا ہو گئیں۔ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والی نئی قیادت کے باعث ہمسایہ ممالک سے امن پر مبنی تعلقات اور وطن عزیز میں عوام دوست پالیسیوں کے بننے کی امید پیدا ہو گئی۔
شیکپسپئیر نے کہا تھا کہ "بزدل موت سے قبل ہی کئی مرتبہ مرتا ہے جبکہ بہادر موت کا ذائقہ صرف ایک بار ہی چکھتا ہے"۔ پاکستان کے بہادر اور مضبوط وزیراعظم عمران خان نے انتہائی جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرتار پور کی سرحد کو کھول کر روایتی حریف بھارت کو امن اور محبت کا پیغام دیا ہے۔ کرتار پور احاطہ دونوں ممالک میں بکھری ہوئی سکھ برادری کو آپس میں ملوانے کے ساتھ ساتھ اس برادری کی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ نارووال ڈسٹرکٹ میں موجود بابا گرو نانک کا مقبرہ جو پاک بھارت سرحد سے محض 4 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اس کی زیارت کیلئے کرتار پور کے ذریعے ویزہ کے حاصل کیے بغیر آنے کی تجویز بہت پہلے سکھ برادری نے پیش کی تھی۔ یہ تجویز سب سے پہلے 2001 میں پرویز مشرف کے دور میں منظور کی گئی تھی۔
گرونانک سکھ مذہب کے بانی تھے جو 22 ستمبر 1539 کو وفات پا گئے۔ برصفیر کی دو حصوں میں تقسیم کے بعد سے ہر سال سکھوں کی ایک بڑی تعداد گرو نانک کے مزار کی زیارت کیلئے پاکستان آتی ہے اور اسے اس ضمن میں ویزا کے حصول اور دیگر سفری دستاویزات حاصل کرنے کیلئے دشوار کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اکثر سکھ مالی مشکلات کے باعث قانونی پیچیدگیوں میں الجھ جاتے ہیں۔ نتیجتاً سکھ برادری کی ایک بڑی تعداد اپنا مذہبی فریضہ انجام دینے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ سکھ برادری کو اپنے مذہبی مقامات پاکستان میں واقع ہونے کے باعث پاکستان سے پیار ہے۔ یہ پاکستان سے ویسی ہی عقیدت رکھتے ہیں جیسی مسلمان برادری سعودی عرب سے مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کے باعث رکھتی ہے۔ کرتارپور راہداری کے افتتاح کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا، دانشوروں کے حلقوں اور سیاسی راہنماؤں نے بھرپور طور پر سراہا ہے۔ پاکستان میں ساری کی ساری سیاسی قیادت اور عوام اس ضمن میں ایک صفحے ہر دکھائی دیے لیکن بھارتی حکومت کا ردعمل سفارتی آداب کے منافی اور منافرت پر مبنی تھا۔
آج کی دنیا ماضی کی دنیا سے بیحد مختلف ہے۔ اب جنگوں کے بجائے امن اور محبت پر مبنی اقدامات کے ذریعے خارجی محاذ پر لڑائیاں جیتی جاتی ہیں۔ ایک امریکی صدر نے کہا تھا کہ "میں نے اپنے دشمنوں کو ختم کر دیا ہے کیونکہ میں نے انہیں اپنا دوست بنا لیا ہے"۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت اور دشمنی کو ختم کرنے کیلئے سب سے موزوں طریقہ دوستی اختیار کرنے کا ہے۔ اسی طرح رچرڈ نکسن نے کہا تھا کہ "جو تم سے نفرت کرتے ہیں وہ تم سے اس وقت تک نہیں جیت سکتے جب تک کہ تم ان سے نفرت کرنا شروع کر دو، اور خود کو تباہ کر ڈالو"۔ انتہا درجے کی نفرت اور بدگمانیوں نے پہلے ہی دونوں ممالک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ میرے خیال میں کرتارپور کا احاطہ مستقبل میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اقوام متحدہ میں معاون ثابت ہو گا اور اس ضمن میں اب مزید اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ یہ مشترکہ تہذیبی ورثے کو ہم آہنگ کرنے کی جانب پہلا قدم ہے اور اس ضمن میں ابھی بہت سے اور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
میرے دماغ میں شکوک و شبہات اور کنفیوژن پیدا ہوتے ہیں کہ کیا کرتارپور احاطے جیسا اقدام محض بھارت تک محدود ہے یا مستقبل میں اس طرح کے اقدامات مزید ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے اٹھائے جائیں گے۔ سیاسی اور فوجی قیادت کو اسی قسم کی وسیع القلبی اور جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بھی کرنا چاہیے۔ خان عبدالغفار خان کی افغانستان میں موجود زیارت اور رحمان بابا کی پاکستان میں موجود زیارت سرحد کے دونوں جانب بسنے والی پشتون برادری کا مشترکہ تہذیبی ورثہ ہیں۔ ریاست کو پاک افغان سرحد کے گرد چند مخصوص مقامات کو سیاحتی مقامات قرار دیکر دونوں اطراف کے لوگوں کو باہمی میل جول کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے مابین باہمی ثقافتی پروگراموں کے تبادلوں کا بھی آغاز کرنا چاہیے۔ اسی طرح سندھی، بلوچ اور دیگر برادریوں کی عراق اور ایران کے ساتھ تہذیبی اور مذہبی وابستگی ہے۔ حکومت کو ان برادریوں کو ان ممالک میں آزادانہ آمد و رفت کیلئے مناسب سکیورٹی، ٹرانسپورٹ اور سرکاری سطح پر دیگر سہولیات مہیا کرنا چاہئیں۔
پاکستان میں مختلف اقلیتیں بھی بستی ہیں۔ انہیں ان کے مکمل حقوق فراہم کیے جانے چاہئیں۔ ریاست کو ان اقلیتوں کے ساتھ بھی کھڑا ہونا چاہیے۔