اس معاملے کو کبھی کسی کھانے یا چائے کی میز پر ڈسکس ہوتے دیکھا ہو تو دیکھا ہو۔ ہاں کہنا ہے تو ہمارے بچوں، عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف کہیں۔ اس پر قانون سازی کی بات کریں، یا ان ہنسی مذاق والی گفتگوؤں میں جن میں حامد میر صاحب کو زبردستی لا کر بٹھایا جاتا ہے۔ کل ایک محفل میں بیٹھے اس بات پر غور کر رہے تھے کہ سچ آخر کیا ہوتا ہے؟ سچ اگر ننگا نا ہو تو کیا 'سچ' کی تعریف پر پورا اترے گا؟ تو ایک دوست نے کہا کہ سچ تو ننگا ہی ہوتا ہے، اس کو ڈھانپ دیں تو سچ نہیں رہتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ میر صاحب کو آنکھیں کھول لینی چاہیں اور اس کو دیکھنا چاہیے کہ دراصل خطرہ کس کو کس سے ہے۔ حامد میر صاحب کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ جس محفل میں بیٹھے ہوتے ہیں وہیں کے اسیر ہو جاتے ہیں، انہیں ان حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں سے ایوانوں میں بیٹھے ان وزرا اور مشیروں کے حوالے سے بھی پوچھنا چاہیے تھا جن کے تعلقات کرائے پر ملنے والے لڑکوں اور لڑکیوں سے اکثر ہی رہتے ہیں۔ بھلا ہو ریحام خان اور حریم شاہ کا کہ انہوں نے کم از کم جو جیسا ہے ویسا کہہ ڈالا۔ اب بات صرف عمران خان صاحب تک نہیں بلکہ باقی بھی حکومتی عہدیداروں کی شوقین مزاجی کی ہے۔ اب شائد میری اس تحریر سے کچھ لوگوں کو واقعی میں غصہ آ رہا ہو گا۔
تو جناب حامد میر صاحب! ایسے نجی معاملات پر آپ کو بھی گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے تھا جب تک کہ آپ یہ نہ جان لیتے کہ ایسے معاملات پر خبر بھی کیسے دینی ہوتی ہے۔ آپ نے خبر سے بڑھ کر اپنا تجزیہ پیش کر دیا کہ معاشرے کی خوشبو کو اس مسئلے سے شدید خطرہ ہے۔ آپ نے جب صحافت کی ڈگری حاصل کی تب شائد آپ کو اس حوالے سے پڑھنا اہم نہیں ہو گا کہ ہم رنگ، نسل، مذہب، سیکس اور جنسی ترجیحات رکھنے والی کمیونٹیز کے حوالے سے رپورٹنگ میں کن احتیاطوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، آپ کو مذہبی معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی امتیازی رویے سے بچنا ہوتا ہے۔ آپ کا نام بڑا ہے، لوگ آپ کو جانتے ہیں، سنتے ہیں اور مانتے ہیں، میں ناچیز ہوں مگر بعض اوقات جہاں بڑے غلط ہوں، بچوں کو وہاں اپنے بڑوں کو سمجھانا چاہیے سو میں وہی گستاخی کر رہا ہوں۔
ان کچھ اصولوں کے ساتھ جو آپ کو ضرور پڑھنے ہیں۔ پاکستان میں ہم جنس پرستی سے متعلق قوانین کا بھی مطالعہ ضرور کیجیے گا اور اس کی قلابیں اسلامی قوانین سے ملانے کی کوشش بھی ضرور کیجیے گا۔ آپ کو علم ہوگا کہ صرف بلاسفیمی کا قانون ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بیشتر قوانین نو آبادیاتی دور سے چلے آرہے ہیں اور ہمیں ان کو بدلنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ میں تو بلکہ آپ کو دعوت دیتا ہوں، ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طبقے کو بالکل علیحدہ کر کے دیکھنے کے بجائے ہم صحیح اصولوں پر برائی کا تعاقب کیسے کر سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ میں بہت بڑی تعداد میں چھوٹے اور نوجوان لڑکے بطور جنسی ضرورت کے رکھے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، کب سے ہو رہا ہے، اور اس میں خباثتیں کیا ہیں؟ آئیے اس پر غور کرتے ہیں۔ اور ایسے عناصر بھی جو ملک میں بچوں اور جانوروں کے ساتھ جنسی زیادتی کو قانوناً صحیح قرار دینا چاہتے ہیں۔
جہاں تک خوشبو کو کسی شے سے خطرے کا تعلق ہے تو وہ لاشعوری ہے، لاعلمی ہے، شدت پسندی ہے، سنسرشپ ہے اور معاشرے کے وہ تمام جبر ہیں جس کے شکار آپ اور ہم سبھی ہیں۔ اس معاشرے کو چند اپنی مرضی سے جینے والے لوگوں سے خطرہ ہے، تو کہیں کہ حبیب جالب بھی غلط تھے، کہیں کہ عاصمہ جہانگیر بھی غلط تھیں، کہیں کہ ہر وہ شخص غلط ہے جو نجی اور معاشرتی آزادیوں پر یقین رکھتا ہے اور اس کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ یہ تو آپ کا اپنا ادارہ بھی کہتا ہے، جیو اور جینے دو، آپ اس سے انکاری ہیں؟