دنیا گلوبل وارمنگ کے نئے دور میں داخل، درجہ حرارت 1.5 ڈگری سے اوپر جاسکتا ہے، سائنسدان

زمین پر حدت میں اضافہ کرنے والے اخراج سے گرمی، بدترین سیلاب، ہیٹ ویو اور طوفانوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی سطح میں اضافے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے،گزشتہ سال کا ریکارڈ توڑ درجہ حرارت اس بات کی علامت ہو سکتا ہے کہ دنیا گلوبل وارمنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے جا رہی ہے، جس میں درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر جاسکتا ہے، جس کا تجربہ انسانوں نے کبھی نہیں کیا

04:05 PM, 11 Feb, 2025

نیوز ڈیسک

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کا ریکارڈ توڑ درجہ حرارت اس بات کی علامت ہو سکتا ہے کہ دنیا گلوبل وارمنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے جا رہی ہے، جس میں درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر جاسکتا ہے، جس کا تجربہ انسانوں نے کبھی نہیں کیا۔

نجی اخبار کی  اخبار میں شائع ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق پیرس معاہدہ جس میں عالمی حدت میں اضافے کی حد 1.5 ڈگری سیلسئس رکھی گئی تھی، اس چھوٹے نمبر کے انسانوں اور فطرت پر بڑے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ خطرے کی علامت ہے، کیونکہ زمین پر حدت میں اضافہ کرنے والے اخراج سے گرمی، بدترین سیلاب، ہیٹ ویو اور طوفانوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی سطح میں اضافے اور جانوروں اور پودوں کی مختلف اقسام کے معدوم ہونے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔

اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم ریپل کا کہنا ہے کہ ’اس سطح سے زیادہ درجہ حرارت شدید موسم، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور انسانوں کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔

انہوں نے ’نیچر کلائمیٹ چینج‘ نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی دو حالیہ تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس سے عبور ہونے یا نہ ہونے پر تحقیق کی گئی ہے۔

عالمی ادارہ موسمیات کے مطابق سائنس دانوں نے پیرس کے طویل المدتی اہداف کو 2024 میں دیکھی جانے والی غیر معمولی گرمی سے ملانے کی کوشش کی، جس کے مطابق گزشتہ سال 1.5 ڈگری سیلسیس سے اوپر تھا۔

ایک سال میں درجہ حرارت کا حد سے تجاوز کرنا پیرس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں، جس کے حوالے سے خیال ہے کہ اس کا جائزہ تقریباً 20 یا 30 سال بعد لیا جائے گا تاکہ ہر سال درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کو کم کیا جا سکے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس حد تک دنیا اب تک تقریباً 1.3 ڈگری سیلسیس گرم ہو چکی ہے، جو گزشتہ ایک لاکھ 25 ہزار سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

اقدامات کا وقت
جرمنی اور آسٹریا سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیم نے مشاہداتی اعداد و شمار اور کمپیوٹر ماڈلنگ کا استعمال کرتے ہوئے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کیا ایک سال میں 1.5 ڈگری سیلسیس کا عبور ہونا ’ابتدائی انتباہ‘ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ تاریخی نمونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا واحد سال جو درجہ حرارت کی ایک خاص حد کو عبور کرتا ہے، اس کے درجہ حرارت کا دورانیہ 20 سال تک قائم رہتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ 2024 کو 1.5 ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت والا پہلا سال کہا گیا تھا، جس سے یہ بات ظاہر ہے کہ زمین پہلے ہی 20 سال کی اس مدت میں داخل ہو چکی ہے جس میں 1.5 ڈگری سلیسیس درجہ حرارت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سخت کوششیں نہیں کی گئیں تو پیرس معاہدے کے ہدف کی باضابطہ خلاف ورزی 10 سالوں کی مدت میں ہوجائے گی۔

لہٰذا محققین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت کا 1.5 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کرنا خوفزدہ یا مایوس ہونے کا نہیں بلکہ اقدامات کرنے کا وقت ہے۔

دوسرے مطالعے میں، کینیڈا کی وزارت ماحولیات اور آب و ہوا کی تبدیلی سے تعلق رکھنے والے ایلکس کینن نے کچھ مختلف طریقہ کار استعمال کیا، تاہم اسی سے ملتے جلتے نتیجے پر پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ 2024 میں 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد عبور کرنے کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ 2029 سے پہلے طویل المدتی حد بھی عبور ہوجائے گی۔

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آنے والے سالوں میں حقیقی دنیا کے عوامل اس میں اہم کردار ادا کریں گے۔

اقوام متحدہ کے آئی پی سی سی آب و ہوا کے ماہرین نے کہا ہے کہ 2030 کی دہائی کے اوائل میں 1.5 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت عبور ہونے کے امکانات آدھے ہیں۔

نیا دور
یہ نئی تحقیق ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب زیادہ تر ممالک پہلے ہی اخراج میں کمی کے لیے منصوبے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

آئی پی سی سی کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کو 2 سیلسیس سے نیچے کے بجائے 1.5 سیلسیس تک محدود رکھنے سے اس کے تباہ کن نتائج کو نمایاں حد تک محدود کیا جاسکتا ہے۔گزشتہ سال دنیا نے 1.5 ڈگری سیلسیس پر پہنچنے کے نتائج بھگتے، غیر معمولی بارشیں، طوفان اور آگ اسی کا پیش خیمہ ہیں۔

مزیدخبریں