براڈشیٹ کمپنی جو کہ گذشتہ چند روز سے نیب سے برطانوی عدالت میں کیس جیتنے کے بعد سے خبروں میں ہے، کے مالک کاوی موساوی کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ برطانوی عدالت نے ایون فیلڈ کیس میں ان کو بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اس کے بالکل برخلاف کیا ہے۔
صحافی عرفان ہاشمی کے ساتھ بات کرتے ہوئے موساوی کا کہنا تھا کہ نیب یعنی قومی احتساب بیورو کے لوگ جھوٹے ہیں، انہوں نے ان سے معاہدہ کرنے کے بعد توڑ دیا اور ان کی جو رقم انہیں ملنی چاہیے تھی وہ بھی نہیں دی گئی، اور اس کا الزام ان کی کمپنی پر ہی لگا دیا گیا کہ ان کی طرف سے مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی کمپنی نے تمام معلومات حاصل کر لی تھیں مگر نیب خود ہی ان کرپشن کے کیسز کو پکڑنا نہیں چاہتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شریف خاندان سے انہوں نے کبھی رابطہ نہیں کیا۔ البتہ شریف خاندان کی جانب سے ان سے رابطہ کیا گیا تھا۔ 2012 میں ایک شخص نے ان سے ملاقات کی اور اپنی نواز شریف کے ساتھ تصویر دکھا کر کہا کہ میں نواز شریف کا کزن ہوں اور میں ان کی طرف سے آپ سے ڈیل کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ اس تفتیش کو بند کر دیں لیکن موساوی کے مطابق انہوں نے اس شخص کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور کہا کہ ہم عدالت جائیں گے، جو کچھ بھی آپ کہنا چاہیں وہ عدالت میں کہیں۔
موساوی کا کہنا تھا کہ نیب آج بھی وہی سب کچھ کر رہی ہے جو ماضی میں کرتی آئی ہے لہٰذا یہ کہنا کہ یہ کوئی ماضی کی نیب سے مختلف ہے، بالکل درست نہیں۔ اگر وہ واقعتاً تبدیل ہو گئے ہوتے تو اب آ کر عدالت میں یہ کیوں کہتے کہ براڈشیٹ نے انہیں مکمل معلومات فراہم نہیں کی تھیں، اس لئے اسے رقم فراہم نہیں کی تھی۔ ہم نے ہر طرح کی معلومات فراہم کیں لیکن کوئی سنجیدگی سے ان معاملات کو لینے کے لئے تیار ہی نہیں تھا۔ نیب کے لوگوں نے تو جا کر خود معلومات ان لوگوں کو فراہم کر دیں جن کے اکاؤنٹس کے بارے میں ہم نے انہیں معلومات فراہم کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2000 میں یہ معاہدہ ہوا، اس وقت جنرل امجد نیب کے سربراہ تھے اور وہ واقعتاً سمجھتے تھے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں وہ دیوانگی کی بات کرتے تھے لیکن وہ واقعی اپنے کام میں مخلص نظر آتے تھے اور ان سے ہمارے رابطے بھی ہوتے رہتے تھے۔
موساوی کے مطابق انہیں صرف نواز شریف خاندان اور بینظیر بھٹو خاندان کے خلاف تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا لیکن انہوں نے کہا کہ ہم کسی سابقہ حکومت کے خلاف سیاسی لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے، آپ ہمیں بیرونِ ملک جائیدادوں کے حوالے سے ایک مکمل تفتیش کا کام دیں گے تو ہی ہم کریں گے۔ ان کے مطابق اس کے بعد انہیں 200 افراد کی فہرست فراہم کی گئی۔ ان میں سے ایک شخص ایسا بھی تھا جس کے بارے میں بعد ازاں نیب سے درخواست آئی کہ اس کا نام فہرست سے نکال دیا جائے۔ گو کہ اس شخص کا نام براڈشیٹ نے نکالنے سے انکار کر دیا تھا لیکن یہی شخص بعد میں پاکستان کا وزیر داخلہ بنا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس کا نام نیب نے تفتیش سے نکلوانے کی کوشش کی۔
یاد رہے کہ جنرل مشرف کے دور میں فیصل صالح حیات اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ وزیر داخلہ رہے تھے اور یہ دونوں ہی حضرات پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد پارٹی کے اندر سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنا کر حکومت کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ موساوی ان میں سے کس کی بات کر رہے تھے، یہ واضح نہیں اور نہ ہی عرفان ہاشمی نے ان سے پوچھا۔ ہاشمی صاحب غالباً صرف شریف خاندان کی کرپشن پر رہنا چاہتے تھے، باقی لوگوں کے بارے میں سوال کرنا ان کی ڈومین سے باہر تھا۔
موساوی کا کہنا تھا کہ جب تک جنرل امجد نیب کے سربراہ رہے تب تک تو ان کے ساتھ معاونت جاری رہی لیکن بعد ازاں ان کے ساتھ تعلقات ختم کر دیے گئے۔
عرفان ہاشمی کے سوال کہ کیا آپ کو لگتا ہے نیب نے آپ سے معاہدہ اس لئے ختم کر دیا کہ جنرل مشرف کی بھٹو خاندان اور شریف فیملی سے کوئی ڈیل ہو گئی تھی، پر موساوی کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف 2007 میں برطانیہ آئے تو انہیں میں نے آکسفورڈ یونین میں کھڑے ہو کر یہ سوال پوچھا تھا۔ مشرف نے انہیں جواب دیا کہ میں تو معاونت جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ الیکشن کروایا جائے اور جب الیکشن کروایا تو وہی لوگ پھر سے جیت کر آ گئے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے 80 جیتنے والے ممبران میں سے 22 کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی تھی جس نے مسلم لیگ (ق) کا ساتھ دیا تو ہی جنرل مشرف کی کنگز پارٹی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ یہ ق لیگ بھی مسلم لیگ (ن) کو توڑ کر ہی بنائی گئی تھی۔ گویا مشرف دور میں 200 سے زائد لوگوں کے خلاف کرپشن کے کیسز بنائے گئے اور پھر جب ان میں سے کئی لوگ مشرف کے ساتھ آ ملے تو یہ انکوائریاں بند کر دی گئیں اور براڈشیٹ کے ساتھ 2003 میں معاہدہ ختم کر دیا گیا۔
موساوی کا کہنا تھا کہ 2016 میں ہم نے کیس جیت لیا لیکن اس وقت کی حکومت نے ہم سے توئی تعاون نہیں کیا اور انہوں نے کہا کہ وہ عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ میں نے انہیں بتایا کہ اس سے مزید نقصان ہی ہو سکتا ہے جو کہ انہیں ہوا بھی۔ اور ابھی بھی انہوں نے ہمارے پیسے واپس نہیں کیے ہیں۔ ہم نے عدالتی کارروائی 2009 میں شروع کی تھی۔ پیپلز پارٹی حکومت نے بھی ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ جب شہزاد اکبر سے متعلق ان سے سوال کیا گیا تو موساوی کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر سے انہوں نے ملاقات کی تھی اور شہزاد اکبر نے تسلیم کیا کہ ہمیں آپ کو پیسے دینے ہوں گے لیکن انہوں نے مجھ سے ڈسکاؤنٹ کا مطالبہ کیا۔ یہاں موساوی نے بھی تھوڑی سیاست دکھائی اور کہا کہ یہ پیسہ عوام کا نہیں بلکہ ان لٹیروں کا ہے جنہوں نے پاکستان کے عوام سے پیسہ لوٹا ہے، اس لئے میں نے کوئی رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نیب نے کوئی ریکوری تو کی نہیں، پیسہ تو پھر عوام کی جیبوں سے ہی جانا ہوگا۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہیں پاکستان کے عوام کو رعایت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو پیسے ان کے بنتے ہیں، وہ ریاستِ پاکستان کو ہی ادا کرنا ہوں گے۔ کوئی دوسرا پاکستانی اداروں کی نااہلی اور کرپشن کے لئے نقصان کیوں اٹھائے؟
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انہیں ایک اکاؤنٹ کی اطلاع دی جس میں ایک ارب ڈالر تھے، اور انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ایک پاکستانی جنرل برطانیہ آئے اور میں نے ان سے لندن میں ملاقات کی، میں نے انہیں ساری بات بتائی، اور اس حوالے سے حلف نامہ بھی برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی میں جمع کروا چکا ہوں لیکن انہوں نے ان معلومات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ 2002 میں تو انہوں نے اس سے بھی برا کیا کہ اکاؤٹ کے مالک کو ہی بتا دیا کہ ہمیں اکاؤنٹ کے بارے میں پتہ چل گیا ہے اور چند روز بعد ساری رقم اس اکاؤنٹ سے نکال لی گئی۔ یہ سب نیب کے افسران نے کیا۔
لہٰذا ہمیں یہ نہ کہا جائے کہ ہمارے پاس تفتیش کے ذرائع موجود نہیں تھے۔ ہمارے پاس ذرائع نہ صرف موجود تھے، عدالت کے مطابق ہم نے پیسہ ڈھونڈ لیا تھا، اور وہ بھی 17 برس قبل۔ آج ہمارے پاس اس سے کہیں زیادہ صلاحیت ہے۔
2017 میں ہم نے حکومتِ پاکستان کو بتایا کہ ایک اکاؤنٹ کا پتہ چلا ہے جس میں اربوں ڈالر موجود ہیں، ہمیں کبھی جواب موصول ہوا۔ وہ اس اکاؤنٹ میں بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ بعد میں رقم کا ایک حصہ مالک کے پاس رہا، کچھ انہوں نے آپس میں بانٹ لیے۔ یہ ایک کمپنی اکاؤنٹ تھا، اس میں رقم 2016 میں سعودی عرب سے آئی تھی، میں نے پاکستانی حکومت کو سب بتا دیا لیکن انہوں نے ایک انگلی بھی نہیں اٹھائی۔ مجھے کہا یا کہ اگر ہم اب آپ کے ساتھ ایک معاہدہ کریں تو کیا آپ یہ معلومات ہمیں فراہم کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اگر آپ معاہدہ کریں اور مجھے گارنٹی دیں کہ یہ معاہدہ توڑا نہیں جائے گا تو میں سوچ سکتا ہوں۔ انہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور پوچھا ہمارا حصہ کیا ہوگا؟ میں نے کہا آپ میرے سے ایک کرپشن کیس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے مجھ سے بات کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی رشوت کا پوچھ رہے ہیں۔ تو میں پاکستانی قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی حکومت تھی آپ کے ملک میں 2017-18 میں۔
موساوی کے انکشافات چشم کشا ہیں لیکن دوسری جانب مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ یہ شخص بالکل جھوٹ بول رہا ہے۔ اس نے 17 سال میں کچھ ثابت نہیں کیا اور اب بھی کہہ رہا ہے کہ اسے دوبارہ سے کانٹریکٹ دیا جائے تو یہ ساری معلومات فراہم کر دے گا کیونکہ اس کو صرف کاروبار کرنا ہے اور اس کے لئے پاکستانی حکومتوں سے رقم اینٹھنا چاہتا ہے۔ عدالت کی جانب سے بری کیے جانے کے حوالے سے مسلم لیگ نواز مؤقف رکھتی ہے کہ موساوی نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو اپنے کیس سے نتھی کرنے کے لئے برطانوی عدالت سے درخواست کی تھی اور وہ درخواست مسترد ہوئی کیونکہ عدالت کے مطابق ان دونوں چیزوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا۔ پارٹی کا یہ بھی مؤقف ہے کہ اگر براڈشیٹ کو کوئی رشوت کی پیشکش ہوئی تھی تو وہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو اس کے بارے میں مطلع نہ کر کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں اب بھی پیشکش ہے کہ عدالت میں مقدمہ لے جائیں۔ انہوں نے یہ سب باتیں تب تو کی نہیں جب مقدمہ عدالت میں چل رہا تھا، اور اب میڈیا کے سامنے آ کر یہ باتیں کر رہے ہیں۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ براڈ شیٹ کا مالک چاہتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اس سے معاہدہ کرے۔ براڈ شیٹ کے مالک کو یہ معاملہ عدالت لے جانے کی دعوت دی گئی ہے لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں۔
براڈ شیٹ کے مالک نے مزید رقم کی منتقلی کے دعوے بھی کیے ہیں اور پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ اس کے دو جرنیلوں نے تین سال قبل لندن میں متعدد ملاقاتیں کی ہیں۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہوا میں تیر چلا رہا ہے اور اس کے پاس دکھانے کے لئے کچھ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کبھی کسی نے اس سے کسی طرح کا رابطہ نہیں کیا کیونکہ شریف خاندان نے سب کچھ قانون کے عین مطابق اور اعلانیہ کیا۔
اب دیکھنا ہوگا کہ حکومتِ پاکستان ان کیسز پر کچھ کرتی ہے یا نیب یوں ہی سیاسی انجینیئرنگ کے لئے استعمال ہوتا رہے گا۔