زندگی سات رنگوں میں
کہتے ہیں زندگی غم اور خوشی سے عبارت ہے۔ کہیں لمحات مسکراتے ہیں اور کہیں آنسو بہاتے ہیں۔ کچھ لمحے اداس بھی ہوتے ہیں، بے رنگ خاکوں کی طرح اور کچھ لمحے پھولوں کی طرح کھلتے اور تتلیوں کی طرح اڑتے بھی نظر آتے ہیں۔ ایسے خوشگوار لمحے جب یاد آتے ہیں تو اداس ہی تو کر دیتے ہیں۔ زندگی انہی مختلف رنگوں کا مجموعہ ہے جہاں کہیں فرصتوں کا ڈھیر ہے تو کہیں کوئی کام سے نڈھال۔ کہیں ہنسی کا راج ہے تو کہیں کوئی اپنے ہی اندر کئی مشکلات سے دوچار ہے۔ کہیں کوئی سکون اور آرام کے دو پل کو ترس رہا ہے اور کسی کے پاس اتنی فراغت ہے کہ وہ بس کچھ پل کے لئے کہیں مصروف ہونا چاہتا ہے تاکہ اپنی سوچوں سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔ انہی رنگوں سے متاثر ہو کر نیا دور نے ایک سیریز کا آغاز کیا ہے۔ “زندگی سات رنگوں میں“ ایک انٹرویو سیریز ہے، جسے کرنے کا میں کچھ عرصے سے سوچ رہی تھی۔ جب اس سوچ کو میں نے سر رضا رومی تک پہنچایا تو ناصرف انہوں نے بے حد سراہا بلکہ ہر طرح سے مدد بھی کی۔ اس کا نام زندگی سات رنگوں میں اس لئے ہے کیونکہ اس میں ہم ( نیا دور میرے سب سینئر جرنلسٹ) سات مختلف شعبوں کے لوگوں سے ان کی زندگی کی کچھ حسین، بہترین اور خوبصورت یادیں جانیں گے اور انہیں لفظوں کی مالا میں پرو کر آپ تک پہنچائیں گے۔
جویریہ صدیق ایک صحافی اور لکھاری ہیں۔ انہوں نے 2008ء میں میڈیا کا سفر شروع کیا۔ پہلے وہ الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ایک رپورٹر تھیں۔ انہوں نے چائلڈ لیبر رپورٹنگ پر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) سے 2009ء ایوارڈ بھی جیتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے کئی نیشل ایونٹس کی کوریج کی اور بہت سارے ایوارڈ اپنے نام کئے۔ سانحہ اے پی ایس پر ان کی کتاب “سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشتیں“ ان کی قابل ذکر تصنیف ہے، جس میں انہوں نے نہایت تکلیف دہ یادوں کو لفظوں کی مالا میں پرویا ہے۔ یہ کتاب سانحہ اے پی ایس کے شہدا کیلئے خراج تحسین ہے۔ جویریہ صدیق اپنے کیرئیر میں کئی پولیٹیکل، سوشل اور فیچر سٹوریز کور کر چکی ہیں۔ اب جویریہ صدیق پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ صحافت کے شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اس وقت جویریہ ٹی آر ٹی اور دنیا نیوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان سے ادھوری ملاقات یعنی ٹیلیفونک انٹرویو کے ذریعے بات کرنے کا موقع ملا۔ وہ ایک انتہائی قابل صحافی، انتہائی نرم دل انسان اور نفیس خاتون ہیں۔ تو آئیں ان سے ملاقات کا احوال آپ سب کے گوش گزار کرتے ہیں۔
جویریہ صدیق نے بتایا کہ وہ 2008ء میں میڈیا سے وابستہ ہوئیں۔ اپنے کیرئیر کے دوران انہوں نے بہت سارے سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں کو کور کیا۔ انہوں نے موحولیات، سیاست، دفاع اور سوشل بیٹس پر کام کیا۔ دوران کیرئیر انہیں چار صحافتی ایوادڑ ملے جس میں سب سے قابل ذکر آئی ایل او کا ایوارڈ ہے جو انہیں چائلڈ لیبر رپورٹنگ پہ ملا۔ سانحہ اے پی ایس پر انہوں نے کتاب لکھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ پہلے الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ تھیں لیکن اب پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کا حصہ ہیں۔ وہ دنیا نیوز اور ٹی آر ٹی کے ساتھ وابستہ ہیں اور انڈیپنڈنٹ اردو کے ساتھ بھی کالم نگار کے طور پر وابستہ ہیں۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے گھر کا ماحول کیسا تھا؟اس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر کا ماحول بہت دوستانہ تھا، کیونکہ وہ گھر میں چھوٹی تھیں، اس لئے انہیں بہت پیار اور محبت ملی۔ وہ بچپن سے ہی لکھنے کے شعبے سے وابستہ ہو گئی تھی۔ ان کی پہلی کہانی پھول اور کلیاں میں شائع ہوئی۔ پھول اور کلیاں اس وقت بچوں کا ایک مشہور میگزین تھا۔
بچپن کی ایک خوبصورت یاد کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب انہیں “پاکستان سائنس فائونڈیشن “ سے آل پاکستان پرائز ملا اور ساتھ دس ہزار کا چیک کچھ کتابیں، سرٹیفیکیٹ اور شیلڈ ملی جو ان کے پاس آج بھی موجود ہے تو اس وقت وہ بہت خوش ہوئیں۔ یہ یاد ان کے ذہن میں آج بھی پہلے دن کی طرح تازہ ہے۔ اپنی بچپن کی بری یاد بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سکول میں ایک دفعہ وہ اپنی دوست کے ساتھ کھیل رہی تھیں، اسی دوران ان کی دوست جن کا ثناء شعیب تھا انہیں چوٹ لگ گئی اور ان کا بازو ٹوٹ گیا۔ یہ واقعہ ان کے ذہن میں آج بھی محفوظ ہے۔
ان کے خاندان کی خوبصورت روایت پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان میں ہر خوشی کے موقع پر کھیر بنتی ہے۔ ہر خوشی کے موقع پر ان کے خاندان کے افراد میں تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یہ روایت انہوں نے اپنی والدہ سے سیکھی۔
جب میں نے ان سے پوچھا گیا کہ کوئی ایسا لمحہ جب ان کی زندگی بدل گئی؟ تو انہوں نے بتایا کہ 2010ء میں انہوں نے راولپنڈی میں ایک سٹوری کور کی جس میں خاتون فالج کی مریضہ تھی اور ان کے دو بچے معذور تھے۔ اس خاتون کے علاج کیلئے امداد اکٹھی کی اس دوران انہیں اس خاندان نے کافی دعائیں دیں۔ اس وقت ان کی زندگی بدل گئی اور انہوں نے اپنی صحافت کو عام عوام کیلئے وقف کر دیا۔ اس کے کے بعد انہوں نے بہت سی فیچر سٹوریز کور کیں اور کافی لوگوں کی مدد کی۔ اپنے کیرئیر کے دوران بہت سارے لوگوں کیلئے امداد اکٹھی کی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اب لوگ مجھ سے ای میل، ٹویٹر اور فیس بک اپنے مسائل بتاتے ہیں اور میں ان کی مدد کرتی رہتی ہوں۔
جب ان سے میں نے پوچھا کہ کوئی ایسا واقعہ جس نے انہیں بہت پریشان کیا۔ تو انہوں نے بتایا کہ اے پی ایس کے واقعے نے انہیں بہت پریشان کیا۔ اس کے علاوہ 2021ء میں وہ شدید بیمار پڑ گئی تھی۔ دو ہفتے وہ مکمل بیڈ ریسٹ پر تھیں۔ اس دوران انہیں لگا کہ شاید ان کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ مگر ان کی فیملی اور دوستوں کی سپورٹ سے وہ دوبارہ ٹھیک ہوئی۔ وہ وقت ان کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔
ان سے جب میں نے پوچھا کہ انہوں نے سب سے الگ کام اپنی فیملی میں کیا کیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کی پہلی خاتون جرنلسٹ اور مصنف ہیں اور وہ اپنے خاندان کی پہلی خاتون ہیں جن کی خدمات کو بین الاقوامی سطح پر ناصرف سراہا گیا۔ صرف یہی نہیں وہ ایک بہت اچھی فوٹوگرافر بھی ہیں اور انہیں قدرت کے حسین مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں بند کرنا بے حد پسند ہے۔
اپنی زندگی کا سب سے پرمسرت اور قابل فخر لمحہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2020ء میں دنیا نیوز کے ایڈیٹورئیل کیلئے انہوں نے لکھنا شروع کیا جو ان کی سب سے بہترین خوشی تھی اور پھر 2021ء میں انہیں پاکستان اور آذربائیجان کے مثبت تعلقات اجاگر کرنے پر انہیں آذربائیجان کی طرف سے صحافتی ایوارڈ ملا جو ان کے لئے ایک قابل فخر لمحہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے فالورز ان کا فخر ہیں جو ان کی ہر خوشی مناتے ہیں۔ 2021ء میں انہوں نے ڈاکٹر سامیہ راحیل قاضی کے ساتھ قرآن کلاس بھی شروع کی۔ وہ لمحہ بھی ان کی زندگی کا بہترین اور خوبصورت تھا۔
دنیا کے تمام مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگر انہیں اقتدار دیا جائے تو وہ دنیا سے غربت کے خاتمے کیلئے کام کرنا چاہیں گی کیونکہ وہ لوگوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتیں اور جب وہ کسی شخص کو کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلاتے دیکھتی ہیں تو انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ وہ دنیا کی تمام ایسی مظلوم قوموں کیلئے کام کرنا چاہتی ہیں۔ جب جب وہ کسی کی مدد کرتی ہیں تو اس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے لئے انسانیت یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کریں اور اب چونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگ جسمانی، نفسیاتی اور معاشی لحاظ سے بہت کٹھن حالات سے گزر رہے ہیں، اس وجہ سے ان کا مقصد اب بس لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسانوں کو ہر ذی روح کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے کیونکہ یہی ایک خوبی ایک انسان کو دوسرے انسانوں سے ممتاز بناتی ہے۔
نئی نسل کو پیغام دیتے ہوئے وہ تھوڑی افسردہ بھی ہوئیں اور بتایا کہ ان کے پاس سب کچھ ہے، انہیں بہت چھوٹی عمر میں شہرت ملی مگر اب ان کی زندگی کی سب سے بڑی کمی بچے ہیں کیونکہ ابھی تک وہ بے اولاد ہیں۔ انہوں نے پیغام دیا کہ اللہ تعالی آپ کو جتنا نوازتا جائے آپ اتنی عاجزی اختیار کرتے جائیں۔ سب کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔