یہ سیاسی تبصرہ انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 62 ون ایف کے تحت نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کیلئے پارلیمنٹ سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہ عدالت سے زیادہ پارلیمان کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سربراہ احسن بھون کی جانب سے جو پٹیشن دائر کی گئی ہے، اس میں نواز شریف کی واپسی کا ماحول بنانے کیلئے کافی مواد موجود ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چوتھی بار بھی نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ اگر وہ 62 ون ایف کے قانون میں ترمیم کرکے ان کی نااہلی ختم کر دیتی ہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے ہی ایک کیس کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس نے دوسری مرتبہ نظر ثانی کی درخواست کرنی ہے، وہ بھارت چلا جائے، ہم اسے نہیں سنیں گے۔ چونکہ نواز شریف کی پہلی نظر ثانی کی درخواست مسترد ہو چکی ہے جبکہ دوسری کے بارے میں وہ واضح فیصلہ دے چکی ہے، اس لئے مجھے نواز شریف کی عدالت سے نااہلی ختم کرانا مشکل جبکہ پارلیمنٹ سے زیادہ آسان نظر آتا ہے۔
ایک اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف جہانگیر ترین کے پاس آتی ہے تو ان کی پہلی ترجیح اپنی نااہلی ختم کرانا ہوگی۔ اگر ان ہائوس تبدیلی کے بعد پی ٹی آئی کا اپنا ہی وزیراعظم آتا ہے تو جہانگیر ترین اور نواز شریف کی نااہلی کا خاتمہ ممکن ہے۔ دونوں کیلئے راستہ کھولا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی پہلے پہل اپنا ایک الگ گروپ بنا کر رکھتے تھے لیکن جب جہانگیر ترین ناراض ہو کر چلے گئے تو انہوں نے مکمل طور پر عمران خان کے کیمپ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب پی ٹی آئی میں عمران خان کے بعد صرف ترین گروپ ہے جس نے بار بار اپنی اہمیت اور طاقت کو ثابت کیا ہے۔
شہباز شریف کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قائد حزب اختلاف کی شعلہ بیانی بدلتے منظر نامے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ بہت محتاط اور محفوظ سیاسی کھیل کھیلنے والے سیاستدان ہیں۔ وہ ان معاملات میں ایڈونچر کے بالکل بھی قائل نہیں ہیں۔ وہ روز بیانات یا پریس کانفرنسز کرنے کی بجائے ٹائمنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بات کرنے اور بولنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اگر عوام کو شہباز شریف بولتا نظر آ رہا ہے تو سمجھ جائیں منظر نامہ بدل رہا ہے۔
پروگرام میں شریک گفتگو رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا تھا کہ نور عالم خان اس سے قبل بھی اپنی جماعت پی ٹی آئی کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں کھلم کھلا اپنے بہنوئی کی سپورٹ کی تھی جن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔
یاد رہے کہ نور عالم خان کے بہنوئی جمعیت کے ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑے تھے اور اب اسد الرحمان کا کہنا ہے کہ ان کے چچا کی بات چیت چل رہی ہے جس پر سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مولانا کی جماعت کی شاندار فتح کے بعد بہت سے ‘electables’ کا رخ اب ان کی جماعت کی طرف ہو سکتا ہے کیونکہ لوگوں کو ان کی ہوا چلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اور جو لوگ کسی ایسے علاقے سے ہوں گے جہاں مولانا کی جماعت اتنی مضبوط نہیں ہوگی، وہاں ن لیگ کی طرف بھی ان لوگوں کا رخ ہو سکتا ہے جیسا کہ جلال خٹک کے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔
سینئر صحافی مزمل سہروردی نے کہا کہ 2018ء میں بھی بہت سے لوگ ایسے یقیناً ہوں گے جو پی ٹی آئی سے دوسری جماعتوں کی طرف جانا چاہتے ہوں گے لیکن انہیں روک دیا گیا۔ دوسری جماعتوں سے توڑ کر لوگ پی ٹی آئی میں شامل کروائے گئے۔ ن لیگ کے لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ آپ پارٹی کا ٹکٹ لے تو لیں لیکن آپ نے جمع نہیں کروانا، ن لیگ اور PTI کے درمیان buffer zone قائم کر دیے گئے جہاں سب کا پارٹی میں یکایک شمولیت اختیار کرنا ممکن نہیں تھا، (غالباً ان کا اشارہ جنوبی پنجاب محاذ کی جانب تھا) لیکن اب الٹا ہو یہ رہا ہے کہ لوگ PTI چھوڑ کر دوسری جماعتوں کی طرف جا رہے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی تبدیلی آئی ہے جس سے معاملات یکسر بدل گئے ہیں اور اگلے دو ماہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔