مولانا صوفی محمد کو ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کے الزام میں 2009 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم جنوری 2018ء میں پشاور ہائی کورٹ نے خرابی صحت کی بناء پر ان کی درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
رہائی کے بعد مولانا صوفی محمد کچھ عرصہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں بھی زیرِ علاج رہے۔ ان کا انتقال بدھ کی شب لوئر دیر کے علاقے میدان میں واقع اپنی رہائش گاہ میں ہوا۔
صوفی محمد کی تدفین جمعرات کی صبح ان کے آبائی علاقے کے قبرستان میں کر دی گئی۔
بی بی سی کے مطابق مولانا صوفی محمد پہلی مرتبہ اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنے جب 1980 کی دہائی میں وہ ہزاروں لوگوں کے ہمراہ ’اسلامی شریعت‘ کے نفاذ کے لیے مسلح ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور پورے ملاکنڈ ڈویژن کا نظام جام کر دیا۔
سوات کے سینیئر صحافی غلام فاروق کا کہنا ہے کہ اس وقت ایسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی کہ جیسے پورے ملاکنڈ ڈویژن پر ٹی این ایس ایم کے مسلح افراد کا قبضہ ہو گیا ہو۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت کئی بڑے بڑے علما اور خواتین بھی صوفی محمد کی تحریک میں شامل ہو گئے تھے۔
صوفی محمد دوسری مرتبہ اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنے جب امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد افغانستان پر حملہ کیا گیا اور وہاں طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ صوفی محمد نے اس وقت ملاکنڈ ڈویژن اور اس وقت کی باجوڑ ایجنسی سے ہزاروں افراد کا مسلح لشکر تیار کرکے طالبان کا ساتھ دینے کے لیے افغانستان کا رخ کیا۔
اس مہم میں ان کے ساتھ ان کے داماد ملا فضل اللہ بھی ہمراہ تھے جو بعد میں سوات میں طالبان کے امیر بنے ۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سوات میں شدت پسندی میں صوفی محمد کی تحریک کا بڑا عمل دخل رہا ہے کیونکہ بیشتر شدت پسند یا تو ان کی تحریک سے متاثر تھے یا پھر ان کے شاگرد تھے۔
صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ امام ڈھیری کی ایک مسجد میں پیش امام تھے جہاں وہ لاؤڈ اسپیکر پر درس دیا کرتے تھے مگر جلد ہی انہوں نے اپنا ایف ایم چینل لانچ کیا اور ان کا پیغام امام ڈھیری سے نکل کر سوات کے بیشتر علاقوں میں پھیلتا چلا گیا اور 2008 کے اوائل میں سوات کے اندر ریاست کا کردار بالکل ختم اور ملا فضل اللہ کی رٹ قائم ہوگئی۔
چترال، سوات اور ملحقہ علاقوں میں عدالتی نظام کی عمل داری نہ ہونے کے باعث مولانا صوفی محمد نے 1982 میں اپنے دیگر ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے نام سے اپنی علیحدہ جماعت کی بنیاد رکھی، جس کا بنیادی مقصد ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا تھا۔
مولانا صوفی محمد کی تحریک نے 1994 میں اس وقت زور پکڑا جب انہوں نے ایک ماہ تک مالاکنڈ ڈویژن میں احتجاج کیا تھا۔
ان کے خلاف دہشت گردی کے 13 مقدمات درج ہوئے۔ ان میں سے اکثر 1990 کی دہائی کے دوران درج ہوئے تھے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان واقعات میں اکثر گواہان اب نہیں رہے لہذا اکثر مقدمات محض دستاویزات کی حد تک زندہ ہیں۔
2008 میں سوات میں تحریکِ طالبان پاکستان کے نام سے نئی مزاحمتی تحریک نے جنم لیا اور سیکورٹی اداروں پر حملے شروع کر دیے۔ اس تحریک کی سربراہی ملا فضل اللہ کے پاس تھی جو صوفی محمد کے داماد تھے۔
اس دوران حکومت کے ساتھ طے پانے والے ایک امن معاہدے کے تحت مولانا صوفی محمد کو رہا کر دیا گیا تھا۔ حکومت نے سوات میں مولانا صوفی محمد کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے شرعی عدالتیں بھی بحال کر دی تھیں۔
مولانا صوفی محمد کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے باوجود سوات میں پرتشدد واقعات میں اضافہ اور طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باعث فوجی آپریشن شروع کر کے مولانا صوفی محمد کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ فوجی آپریشن کے دوران سوات میں مولانا صوفی محمد کا ایک بیٹا بھی ہلاک ہو گیا تھا۔