اکیسویں صدی کے باشعور انسان جب اپنے بچوں کو انسانیت سکھانے کے بجائے امتیازی سلوک کے کٹہروں میں کھڑا ہونا سکھائیں گے تو بلاشک ہر طبقے اور ہر جنس کے انسان کو اپنا الگ راستہ جوڑنا پڑے گا جہاں پر ہم صرف اپنے جنس کے پردے میں چھپ کر دنیا کی سوچ سے دور الگ دیواریں بنا کر اپنے اپنے بنیادی حقوق حاصل کر سکیں۔
ہم وہ قوم ہیں جہاں کے اسکول سرٹیفکیٹ میں فقط دو خانے دیے گئے ہوتے ہیں اور تیسری جنس کا حقِ تعلیم ہمارے اسکولوں میں ہی دفنا دیا جاتا ہے کیوں کہ یہ وہ جنس ہے جو اگر ہمارے بچوں کی ساتھ بیٹھ کر جب تعلیم حاصل کرے گی تو انہیں گالم گلوچ کے برتاؤ امتیازی سلوک اور حقارت کہ سوا شاید ہی کچھ حاصل ہو۔ اور پڑھے لکھے ماڈرن والدین اپنے بچوں کہ قریب اس جنس کہ انسانوں کا سایا بھی برداشت نہ کر سکیں گے کیوں کہ یہ ان جیسے انسان نہیں ہیں۔ ہماری سوچوں کا تعلق ان کم اخلاق رویوں سے ہوتا ہے جہاں پر شاید ہی کبھی پہلے ایسا ہوتا ہوگا۔ یہی تیسری جنس کہ لوگ مغلوں کہ زمانے میں ان کے گھر کے رکھوالے ہوتے تھے ان کی جائیداد اور خزانے کے مالک جیسے ان کو اختیار دیے جاتے تھے۔ مغل بادشاہوں کے ساتھ یہ بھی ایک شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن شاید تب وہ سو کالڈ ماڈرنزم ہم میں نہیں آئی تھی۔ جو ہمیں انسانوں سے دور کر دیتی بنا کسی جنس کا فرق کیے بغیر۔
پاکستان کا آئین جہاں پر آرٹیکل 25 میں بنا کسی ڈسکرمنیشن آف سیکس کے سب شہریوں کو برابری دیتا ہے وہیں پر آرٹیکل 25-A میں ان سب کی مفت تعلیم کا بھی حق دیتا ہے۔ لیکن ہماری سوچوں کہ بڑے بڑے خانوں میں صرف یہ حق مرد اور عورت کے لیے وقف کیے گئے ہیں۔ اور نا جانے یہ تیسرے جنس کہ لوگ پاکستان کی شہریوں کہ زمرے میں آتے بھی ہیں کہ نہیں۔ ایک خواجہ سرا ہونے کا کلنک پیدائش سے ہے ان کہ لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا یہ وہ انسان ہیں جنہیں ہر جگہ پر جسمانی اور جنسی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
جنسی فرق کہ باوجود پاکستان کہ کئی خواجہ سراؤں نے اپنے آپ کو منایا ہے اور اپنی پہچان اعلی' درجوں میں کروائی ہے۔ اور انہیں سب کی ان تھک کوششوں کہ وجہ سے ہی آج کا خواجہ سراء اپنے حقوق حاصل کرنے کی جنگ میں کامیابیاں حاصل کرنے لگا ہے۔ وہ خواجہ سراء جن کو پیدا ہوتے سے ہی مار دیا جاتا تھا یا جب ان کی پہچان خواجہ سراء کے طور پر ہو جاتی تو دھکے دے کر گھروں سے نکال دیا جاتا نہ صرف گھروں سے بلکہ خاندانی ملکیت سے ہمیشہ کہ لیے لا تعلق کر دیا جاتا تھا اور پھر وہی خواجہ سراء جب گلی سڑکوں پر دھکے کھاتے تو ان کے جیسے ہی ان کی رکھوالی کے لیے انہیں اپنی پناہ گاہ تک لے جاتے اور اپنے گرووں کہ سامنے پیش کرتے۔ ایک جوان خواجہ سراء کا گرو کے آستانے پر آنا سونے کی چڑیا کے برابر ہوتا اور پھر اسی بھٹکی ہوئی دھکے کھاتی ہوئی چڑیا کہ سامنے فقط تین آپشن رکھ دیے جاتے، ناچ گانا، جسم فروشی یا پھر سڑکوں پر بھیک مانگنا اور جب ان میں سے کوئی ایک آپشن منتخب ہوجاتا تو پھر ساری زندگی مرنے تک اسی چَکی میں پیسنا ان کا مقدر ہوجاتا۔ لیکن ان سو میں سے چند ایسے رحمدل گرو بھی ہوتے ہیں جو ان نئے نئے آئے چیلوں کو اپنے بچوں کی طرح رکھتے اور ان کی رکھوالی ان کا کھانا پینا اور پڑھنے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے اور انہیں کسی مقام تک لانا ان کا مقصد بن جاتا مگر شاید ہی ایسے گرو کسی خواجہ سراء کو نصیب ہوتے ہوں ورنہ ساری زندگی ان کا بوجھ اپنے ہی کندھوں پر ہوتا ہے۔
چھٹے پاپولیشن اینڈ ہاؤسنگ سینسس کہ مطابق پاکستان میں کل خواجہ سراؤں کی تعداد 10,418 یعنی کہ 207 ملین پاپولیشن میں سے صرف 0.005 پرسنٹ خواجہ سراؤں کی تعداد ہے لیکن کچھ ٹرانسجینڈر ایکٹیویٹس کہ مطابق پاکستان میں تقریباً ایک ملین خواجہ سراء رہتے ہیں۔ ایک سٹڈی کہ مطابق 45٪ خواجہ سراء اکیلے رہتے ہیں، 35٪ خواجہ سراء اپنے گروؤں کہ ساتھ رہتے ہیں اور صرف 19٪ خواجہ سراء اپنے گھروں میں اپنی اپنی فیملی کہ ساتھ رہتے ہیں۔
تعلیم حاصل کرنے والے خواجہ سراؤں کہ لیے پورے ملک میں کوئی خاص اداروں کا قیام نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے خواجہ سراء تعلیم کا شوق ہونے کہ باوجود وہ اس کو حاصل کرنے کا فقط سوچ ہی سکتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز کہ ایک سروے کہ مطابق پاکستان میں 45٪ خواجہ سراء ان پڑھ ہیں۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں 30٪ خواجہ سراؤں نے پرائمری تعلیم حاصل کی ہے اور 23٪ نے سیکنڈری تعلیم اور صرف 7٪ نے کالج کی حد تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ایسے میں پنجاب صوبے کہ ایجوکیشن منسٹر مراد راس کا ایک بہت ہی اعلیٰ اقدام آج کل سب کی زبان پر عام ہونے کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔
ملتان میں پاکستان کا پہلا خواجہ سراؤں کے اسکول کا افتتاح ہونا بہت ہی خوش آئند بات ہے اور اسی اقدام سے ہم آگے کے لیے خواجہ سراؤں کی بہتری کا سوچ سکتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ نہ صرف ملتان اور پنجاب صوبے میں پر اس اقدام کو پورے پاکستان میں ضرور پھیلایا جائے گا۔