ترکی کے جنوبی حصے میں پایا جانے والا کوہ نمرود مذہبی اور آثار قدیمہ کے حوالے سے اہم ہے - کوہ نمرود کے علاوہ ترکی کے دو پہاڑ عرصہ دراز سے ایک نہایت اہم مذہبی اور حساس بحث کا مرکز ہیں .یہ دونوں پہاڑ کوہ ارارات اور کوہ جودی کہلاتے ہیں - ان پہاڑوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے دو سب سے بڑے مذاہب عیسایت اور اسلام کی مقدس کتابوں میں انکا ذکر طوفان نوح اور کشتی نوح کے حوالے سے ہے اور دونوں مذہب کے اربوں ماننے والوں کے ساتھ ساتھ تاریخ دانوں کی توجہ کا بھی مرکز ہے
کوہ ارارات تقریباً پانچ ہزار میٹر بلند شمال مشرق میں آرمینیا ، ایران ، آذربائیجان کی سرحد کے پاس موجود ترکی کا سب سے بلند پہاڑ ہے .ترک زبان میں اس کے نام کا مطلب دکھ ، درد یا غم کا پہاڑ کے ہیں جبکہ کرد زبان میں اس کے نام کے معانی آگ کا پہاڑ کے ہیں جو غالباً اس کے آتش فشاں ہونے کے حوالے سے زبان زد عام ہوا ہو گا ۔
(Genesis 8:4) - بائبل کے مطابق کشتی نوح ارارات کے پہاڑ پر پہنچ کر رک گئی تھی
قرآن مجید میں سورہٴ ہود کی چوالیس نمبر آیات میں ارشاد ہوا
فرما دیا گیا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کر دیا گیا اور کشتی جودی نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ﻇالم لوگوں پرلعنت نازل ہو
ان دونوں مذہبی حوالوں کی بدولت ارارات اور جودی کا معاملہ حساس بھی ہے اور دلچسپ بھی ، کوہ جودی موجودہ دور میں ترکی کے جنوبی حصے میں ارارات سے تقریباً دو سو میل کے فاصلے پر عراق اور شام کی سرحد کےقریب نسبتاً چھوٹا پہاڑ ہے۔
بائبل میں ذکر ہونے کی وجہ سے سفینہ نوح کی باقیات کی تلاش مغربی اور خاص طور پر عیسائی ماہرین آثار قدیمہ کا پسندیدہ موضوع رہا ہے . چونکہ بائبل میں ارارات کے نام سے ہی ذکر ہوا ہے غالباً اس لئے تحقیق کا زیادہ رخ کوہ ارارات کی جانب مرکوز رہا ۔
اس ضمن میں ایک ماہر آثار قدیمہ مارٹن کا دعوه سب سے زیادہ دلچسپ ہے .1998 میں لندن کے اخبار ابزرور میں چھپنے والی خبر کے مطابق ماہرین کی ایک ٹیم نے چھ سال کی محنت کے بعد سفینہ نوح کی دریافت کر لی اور یہ جگہ کوہ ارارات سے دو سو کلومیٹر جنوب میں کوہ جودی پر واقع ہ - یوں قرآنی دعوے کی تصدیق ہوئی تاھم اب بھی بہت سے عیسائی ، ماہرین نے کوہ ارارات کو ہی کشتی نوح کی منزل قرار دیتے ہیں ۔
مسلمانوں اور عیسایوں کے مذہبی عقائد سے قطع نظر ایک دلچسپ تھیوری یہ ہے کہ کوہ جودی بھی دراصل کوہ ارارات ہی کے پہاڑی سلسلے کا ایک حصہ ہے - یعنی ارارات سے مراد ایک وہ پہاڑ نہیں جو کے سب سے بلند ہے بلکہ اس سے مراد ارارات کا پہاڑی سلسلہ ہے جو کوہ جودی تک کئی سو میل پر پھیلا ہوا ہے-اس تھیوری سے شائد مسلمانوں اور عیسایوں کے - مذہبی عقائد کو مد نظر رکھتے ہوۓ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم تحقیق کے زیادہ شواہد کوہ جودی کے حق میں ہی نکلتے ہیں- اس سارے سلسلے میں ایک ڈرامائی نکتہ یہ ہے کے فارسی میں کوہ اراررت جو کے ایران کی موجودہ سرحد سے تقریباً سولہ کلومیٹر دور ہے اس کو کوہ نوح کہا جاتا ہے .لہذا کوہ ارارات اور کوہ جودی زمانہ قدیم سے حضرت نوح کے حوالے سے پہچانے جاتے رہے ہیں۔
موجودہ دور میں کوہ ارارات پر جانا سرحدی تنازعات کی بدولت کافی صبر آزما ہے . حکومت سے باقاعدہ اجازت نامہ ملنے وغیرہ میں دو ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے - کچھ سالوں تک یہ اجازت بھی حساس علاقہ قرار دے کر روک لی گئی تھی- وادی سینا میں جبل موسیٰ ہو یا ترکی کا کوہ نوح مذہبی حوالے سے اہم پہاڑوں کا حساس قرار پانا افسوس ناک ہے جبکہ یہ وہ جگہیں ہیں جنھیں عالم گیر امن کے نشانات کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے، کوہ ارارات پر چڑھنے کے لئے دو جگہ کیمپ لگایا جا سکتا ہے - 3200 میٹر پر پہلا کیمپ اور 4200 میٹر پر دوسرا - پہلے اور دوسرے کیمپ کا فاصلہ تین سے چار گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے .4800 میٹر سے برفانی راستے کا آغاز ہو جاتا ہے جو کے چوٹی تک موجود رہتا ہے۔
ہر اہم پہاڑ کی طرح کوہ ارارات کے ادب اور ثقافت پر بھی گہرے اثرات ہیں .ایک امریکی پروفیسر کے مطابق دنیا میں کوہ ارارات سے زیادہ شائد ہی کسی پہاڑ کو شعر و شاعری کا موضوع بنایا گیا ہو. روسی زبان کے شاعر ویلری برایوسوف نے اپنی ایک نظم میں کوہ ارارات کو ان الفاظ میں خراج پیش کیا ہے
شکریہ، مقدس دیوتا
........
سر پر عزت کا تاج رکھے
ارد گرد پہاڑوں کے حکمران کے طور پر،
آپ زمین کی مٹی سےاٹھتے ہیں
نیلگوں آسمان کے نیچے
........
دور فاصلے پہ - گاؤں،
پتھر، برف ...
ارد گرد کی پوری دنیا قدیم اور سخت ،
جس طرح ایک کشتی نے سب روک دیا ہو.