چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ جب تک سزاؤں پر عملدرآمد اور جرمانوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا لوگ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے باز نہیں آئیں گے۔ صدر پاکستان ملک کا سب سے بڑا عہدہ ہے اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف پورے رمضان کے مہینے میں جعلی اور من گھڑت افواہوں کا سلسلہ چلتا رہا، لوگوں نے ویڈیو بنا کر نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہوئے ویڈیو چلائیں، جو انتہائی افسوناک اور قابل مذمت ہے۔ من گھڑت خبروں سے عوام میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نہ صرف اس ملک میں جانی پہچانی شخصیات ہیں بلکہ بین الااقوامی سطح پر بھی انہیں ایک خاص مقام حاصل ہے، اُن کی عزت کو مجروح کیا گیا ہے، اس طرح لوگوں کی عزتوں کو اچھالنا انتہائی افسوسناک اور قابل سزا جرم ہے۔ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ایسے اقدامات اٹھائے کہ لوگ اس طرح کی جعلی اور من گھڑت افواہوں سے باز رہیں اور اس حوالے سے اگر قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے تو کمیٹی کو آگاہ کیا جائے، کمیٹی ہر ممکن اقدام اٹھائے گی تا کہ اسطرح کے واقعات مستقبل میں نہ ہو سکیں۔
سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ملک کی مقبول ترین شخصیت سابق وزیراعظم کے خلاف بھی الزامات لگائے گئے ہیں، وہ بھی ناقابل برداشت ہیں اس طرح سے الزام بازی نہیں ہونی چاہیے، جس پر سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی شعیب احمد صدیقی نے کہا کہ سابق صدر کے بارے میں جو غلط افواہیں پھیلائی گئی ہیں وہ قانونی اور مذہبی لحاظ سے ناقابل برداشت ہیں، ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔
ایف آئی اے اس حوالے سے اقدامات اٹھا رہا ہے، ادارے کی بجٹ اور دیگر معاملات میں معاونت کر کے مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ وقار احمد چوہان نے کمیٹی کو بتایا کہ جب یہ معاملہ کمیٹی کو ریفر ہوا تو کام شروع کر دیا تھا، اس معاملے میں تین طرح کے لوگ ملوث تھے اور اس حوالے سے 25 لوگوں کے اکاؤنٹ ملوث تھے۔ پی ٹی اے کے ذریعے ٹویٹر کو اکاؤنٹ بند کرنے کی درخواست بھیج دی گئی ہے۔ 25 میں سے11 لوگوں کی شناخت کی گئی اور جس بندے نے گندے الفاظ استعمال کئے تھے وہ کراچی کا رہائشی تھا اور اب کینیڈا میں رہائش پذیر ہے۔
چیئرپرسن کمیٹی نے ہدایت کی کہ جب بھی وہ آدمی پاکستان آئے تو اُس فورا گرفتار کیا جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 11 میں سے پانچ لوگ بیرون ممالک رہائش پذیر ہیں۔ وقار احمد چوہان نے کمیٹی کو بتایا کہ جعلی اور من گھڑت افواہوں کے حوالے سے قانون کے مطابق کام کیا جاتا ہے عدالت شامل ہونے کی وجہ سے کیس کے حل میں دیر ضرور ہوتی ہے، عدالت میں چالان بھیجتے ہیں اور ایک سال سے زائد عرصہ بھی لگ جاتا ہے۔ جس پر چیئر پرسن کمیٹی نے آئند اجلاس میں ڈی جی سائبر کرائم ونگ کو طلب کیا ہے۔
پی ٹی سی ایل ملازمین کی پنشن کے حوالے سے چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کو حل کرنے کی بجائے حیلے بہانے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پنشن کے معاملے کو حل کرانے کیلئے پانچ برس گزر چکے ہیں مگر ابھی تک معاملہ لٹکا ہوا ہے، ایوان بالا کی قائمہ کمیٹیوں کی سفارشات پر عملدرآمد نہ کر کے پورے ہاؤس کا استحقاق مجروح کیا جا رہا ہے اس معاملے کو جلد سے جلد حل کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 1129 کو اہل قرار دیا ہے اور باقی بی ایس ایس کے ملازمین کو علیحدہ رکھنے کا فیصلہ دیا ہے۔
چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ کل 40 ہزار ملازمین میں سے 21 ہزار بی ایس ایس کے ہیں اور اصل ٹی این ٹی کے 17 ہزار ملازمین تھے۔ سیکرٹری آئی ٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ پنشن کے معاملے کے حوالے سے سینیٹ کی اس قائمہ کمیٹی نے بہت کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر اعظم خان سواتی نے بھی سینیٹ اجلاس میں اس معاملے کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی۔
چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ ٹرسٹ کی جو ذمہ داری ہے وہ پوری نہیں کر رہا ہے اگر ملازمین کو فائدہ نہیں دے سکتا تو اسے بند کر دینا چاہیے۔ آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو فائنل رپورٹ دی جائے کہ کب تک پنشنرز کا مسئلہ حل کر دیا جائے گا۔
چیئرپرسن کمیٹی خالد نے کرونا وبا کی وجہ سے تدریسی عمل بند ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے کہ کوئی ایسا طریقہ کار نکالا جائے کہ ہمارے بچوں کی تدریس کا عمل جاری رہے اور وہ کرونا سے بھی محفوظ رہ سکیں۔
سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ پرائیویٹ سکولز گذشتہ کئی ماہ سے بند ہیں مگر بچوں کے والدین سے پوری سکول فیس وصول کی جا رہی ہے۔ آن لائن کلاسز کا انتظام پورے ملک میں نہیں ہو سکتا ملک کے بے شمار علاقوں میں نیٹ ورک موجود نہیں ہیں اور نہ ہی والدین کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اسطرح کی سہولیات اپنے ہر بچے کو فراہم کر سکیں۔
پرائیو یٹ سکولوں کو اپنی فیسیں کم کرنی چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ ملک میں نیٹ ورک پھیلانے کے لئے اقدامات اٹھائے۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے آئند اجلاس میں وزارت تعلیم، ایچ ای سی، اور پیرا کے حکام کو طلب کر لیا تا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر ایسے طریقہ کار نکالا اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ ملک میں ایک موثر اور محفوظ تدریس کا عمل شروع کرایا جا سکے۔