اردو کا مقدمہ: اقلیت کی زبان اردو پاکستان کی قومی زبان کیسے بن گئی؟

07:05 PM, 11 Jun, 2021

نیا دور
پاکستان کی تخلیق سے لے کر  آج تک اسکے  تشخص کے حوالے سے سولات ختم نہیں ہوتے۔ جہاں ایک جانب ریاستی بیانیئے کا پلو تھامے اور مضبوطی سے تھامے قوم کے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے تو دوسری جانب ایسے محققین اور دانشوروں کی بھی کمی نہیں جو مسلسل ریاستی بیانیئے کے بخیئے ادھیڑتے ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ انکے اٹھائے ہوئے اعتراضات کے جواب میں ریاستی بیانیئے کے علمبردار اکثر لکنت کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان سوالات میں سے ایک سوال اردو بطور قومی زبان کی حیثیت پر بھی اٹھتا ہے۔ اس ضمن میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پنجابی بولنے والوں کی تعداد جب سب سے زیادہ تھی تو اسے ہی کیوں نہ قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ اورپھر یہ بھی امر تسلیم شدہ ہے کہ اردو بنگالی  تنازعہ ہی نے پاکستان کے دو لخت ہونے کی بنیاد ڈالی تھی۔ تو پھو بنتاہے کہ صرف 8 فیصد کی زبان    قومی زبان کیسے بنی۔ اس حوالے سے معروف محقق ڈاکتر اشتیاق احمد نے روشنی ڈالی ہے۔

پاکستان میں مختلف زبانیں بولنے والے افراد کی تعداد بلحاظ مردم شماری

پاکستان میں 1951 کی مردم شماری کے مطابق 57 فیصد پنجابی تھے۔ 61 کی مردم شماری میں 56.3 ہوگئے۔ 1981 میں انکی فیصد تعداد48.1 فیصد ہوگئی۔ 1999 میں یہ تعداد 44.15 فیصد ہوگئی۔ پنجاب میں اب یعنی 2017 میں یہ تعداد 38.17  ہوگئی ہے۔ گو یہ کمی ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود پنجابی سب سے بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ پشتو کی فیصد تعداد 51 میں 8.1 فیصد، 61 میں 8.4 فیصد 81 کے مردم شماری میں 13۔8 فیصد ہوگئی۔ 98 کی مردم شماری میں 16.42 ہوگئی 2017 میں 18.24 پشتو بولنے والے اس ملک میں بستے ہیں۔  سندھی بولنے والوں کی بات کی جائے تو 51 میں  ان کی تعداد 12.13۔ 61 میں 12.59 فیصد، 81 میں 12.7 فیصد 98 کی مردم شماری میں 14.1 اور 2017 میں 14.57فیصد  تھی۔ پنجابی اور سرائیکی کو 51 اور 61 کی مردم شماری تک ایک ہی زبان لیا جاتا ہے۔ سرائیکی زبان کے افراد 8 فیصد سے شروع ہو کر اب 12 فیصد کے قریب ہیں۔

اردو زبان  نے ریاست کی زبان بننے کا سفر کیسے شروع کیا؟

مغل دور کے اختتام پر اردو بطور زبان مغل دربار سے لے کر دیگر ریاستی ابلاغ میں غالب آرہی تھی اور فارسی پیچھے جا رہی تھی۔ ڈاکٹر طارق رحمان کے مطابق اردو اور ہندوستانی ایک ہی زبان تھی۔ انگریزوں نے مغلوں سے حکومت حاصل کی تو انہوں نے بھی وہی زبان باقی رکھی۔ 1930 میں جب ملک کو علیحدہ کرنے کی بات ہو رہی تھی تو طے ہوا کہ وہ زبان قومی زبان ہوگی جو لوگ زیادہ سے زیادہ سمجھ سکیں گے۔ کاروبار ریاست کو ہموار اور تکلف سے پاک رکھنے کے لیے ایسی زبان کا ہی انتخاب کیا گیا جو کہ رعایا آسانی سے سمجھ سکے۔

نو آبادیاتی ہندوستان اور مسلم لیگ کی سیاست 
انگریزوں کی جانب سےآفیسر کلاس کے لئے انگریزی اور عام سپاہی کے لیئے اردو کی ترویج کی گئی۔ ہندی سے زیادہ اردو کی ترویج کی گئ۔ ہندوستان میں ہندی اور انگریزی زبان بڑی زبانیں ہیں۔ مسلم لیگ نے کہا کہ ہم نیا ملک چاہتے ہیں جس کی بنیاد مسلم تشخص پر ہو ۔ ہمارا دین اور ہماری زبان الگ ہے۔ مسلم لیگ نے کہا کہ ہندوستانی تو کوئی زبان نہیں ہے۔ یہ تو کانگریس کا ایک فراڈ ہے۔ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ یہ بات حقائق سے دور ہے کہ پنجاب کے ہندو مسلم اور سکھوں نے تو اردو سیکھی تھی۔ انگریزوں نے اسے پروموٹ کیا تھا۔ محمد حسین آزاد کو دہلی سے لا کر اردو بورڈ کا چئیرمین بنایا۔ توکیا یہ سازش تھی؟

کیا اردو زبان کی ترویج انگریزوں کی سازش تھی

ڈاکٹر  اشتیاق کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ پنجاب میں دھڑے بندی شروع ہو چکی تھی۔ سکھوں کا علیحدہ محاذ تھا۔ وہ گرمکھی کی ترویج کرتے تھے۔ انہوں نے فارسی رسم الخط میں میں ترمیم کی۔ ہندووں کا ابلاغ کا تعلق ہندی میں رہا اور انہوں نے اسے اپنی زبان مانا۔ مسلمانوں نے کہا کہ اردو ہماری زبان ہے۔ ورنہ اگر دیکھا جائے تو پنجاب کے تین بہت بڑے اردو کہانی کار سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی مسلمان، ہندو اور سکھ تھے۔ 70 تک مشرقی پنجاب کے اخبار اردو میں نکلتے تھے۔ سکھ ادیبوں نے نظمیں، کہانیاں اردو میں لکھی ہیں۔  تو یہ کہنا کہ یہ انگریزوں کی سازش تھی یہ غلط تھا۔

پاکستان کی تخلیق، اردو زبان، پنجابی اشرافیہ اور قومی تشخص سازی 

پاکستان بن گیا اور اس میں یہ تھا کہ  پاکستانی مسلم شناخت کیسے تخلیق کی جائے۔ یہ ایک عام ریاست جیسا کام نہیں تھا بلکہ ایک تشخص جس کی بنیاد مذہبی ثقافت کو کہا گیا اسے تخلیق کیا جانا تھا۔ مغربی پاکستان میں جو لوگ پختون اور دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والے علی گڑھ یا ریلویز میں کام کرتے تھے مشرقی برصغیر کی جانب جاتے تھے سب ہندوستانی کا استعمال کرتے تھے کیونکہ آسان کاروباری زبان تھی۔ اب پاکستان کی تخلیق کے بعد یہ تو نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ ہندوستانی ہے تو اسے کہا گیا کہ یہ اردو ہے۔ اور پاکستان کی اشرافیہ نے اسے ایک قومی نشان کے طور پر اپنا لیا۔ پاکستانی اشرافیہ کی بڑی تعداد پنجابی تھی اور بیوروکریسی، فوج اور دیگر ذرائع سے یہ اثرو رسوخ حاصل کرتے تھے۔ اس پنجابی اشرافیہ نے کبھی بھی پاکستان کی قومی زبان پنجابی مقرر کروانے کی کوشش ہی نہیں کی۔پنجاب اسمبلی میں قانون رہا کہ تقاریر اردو میں ہوں گی۔ چونکہ اداروں میں اردو استعمال ہو رہی تھی تو لوگ وہی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں۔ اور پھر وہی قومی زبان بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق کے مطابق راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بھی فارسی ہی ریاستی زبان تھی۔
کیا پنجابی زبان کبھی قومی زبان بن سکتی ہے؟
یہ تقریبا ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ پنجابیوں کی اپنی بھی اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اردو ایک آسان زبان ہے۔ اشاعت و تشہیر اردو میں ہو رہی ہے۔ اس لیے سب اسے اپنا چکے ہیں جو کہ ایک اقلیت کی زبان ہے۔
دنیا میں ایسی کوئی اور مثال؟
اسرائیل کی مثال ایسی مثال ہے۔ جہاں جو یہودی اس ریاست کو بنانے آئے وہ یا تو انگریزی بولتے تھے یا پھر دیگر یورپی زبانیں۔ مقامی یہودی عربی بولتے تھے۔ لیکن فیصلہ ہوا کہ اسرائیل کی سرکاری زبان ہربیو ہوگی جو کہ ایک مقدس زبان ہے۔ یہ ریاستیں کسی قومی بنیاد پر نہیں مذہبی بنیادوں پر بنائی گئیں۔پاکستان میں اردو زبان کے علاوہ عربی کو بھی ایک بار پاکستان کی قومی زبان بنانے کی بات کی گئی۔ سر آغا خان بھی اسکے حامی تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

کیا ایک زبان ہو تو ایک ملک ہوتا ہے؟
ایسا نہیں ہے۔ پھر عرب سب کے سب ایک ملک کیوں نہیں ہوجاتے ہیں۔ لاطینی امریکا میں کئی ممالک ہسپانوی زبان بولتے ہیں لیکن نہ تو کوئی گریٹر عرب بنا اور نہ گریٹر لیٹن امریکا۔
مزیدخبریں