ڈیرہ غازی خان کی مختصر تاریخ :
ڈیرہ غازی خان کو مختصراً ڈی. جی.خان بھی کہا جاتا ہے یہ صوبہ پنجاب میں واقع شہر آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا انیسواں بڑا شہر ہے۔ ڈیرہ غازی خان دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ اس کی بنیاد 15ویں صدی کے آخر میں رکھی گئی تھی اور اس کا نام حاجی خان میرانی کے بیٹے غازی خان میرانی کے نام پر رکھا گیا تھا جو ایک طاقتور بلوچ سردار تھے۔ میرانیوں کی 15 نسلوں نے اس علاقے پر حکومت کی۔ 10-1909 میں میرانی تہذیب دریائے سندھ کی تہذیب میں ڈوب گئی۔ موجودہ ڈیرہ غازی خان شہر پرانے شہر سے 16-18 کلومیٹر کے فاصلے پر بنایا گیا تھا۔ اسے ایک گرڈ پیٹرن( grid pattern ) پر بچھایا گیا تھا جس میں چوڑی لمبی سڑکوں اور گلیوں والے بلاکس (blocks) شامل تھے۔ سماجی اجتماعات کے لیے ہر بلاک میں دو کھلی جگہوں کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ یہ بلاک سسٹم اب بھی موجود ہے اور ہر بلاک کو ایک نام دیا گیا ہے جیسے بلاک 5، بلاک 6 اور بلاک 50 وغیرہ وغیرہ۔
نیا دور ٹی وی کی ٹیم جب اہل علاقہ سے ملی تو وہاں کے مکینوں نے نیا دور سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس بلاک سے جسم فروشی اور منشیات کا کاروبار کرنے والے گروہ کو نکالا جائے اور ہمارے بلاک کا نام تبدیل کیا جائے کیونکہ 50 بلاک اس وقت جسم فروشی اور منشیات کے حوالے سے ایک بدنام بلاک ہے. اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 50 بلاک میں اس وقت تقریباً چار سو ( 400) گھر ہے. لیکن صرف چار (04) گھر ایسے ہیں جو کئی سالوں سے جسم فروشی اور منشیات کا کاروبار کرتے آرہے ہیں اور آج بھی جسم فروشی اور منشیات کا کاروبار کھلم کھلا کرتے ہیں. یہ چار (04) گھر ایک ہی گلی کے اندر موجود ہیں اور ایک گروہ کی شکل میں علاقہ مکینوں کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوے ہیں. ان گھروں میں سارا دن لوگوں کا تا نا با نا بندھا رہتا ہے جس میں جسم فروشی اور منشیات کی خریدو فروخت صفہ اول میں شامل ہے.
اس گروہ میں موجود خواتین مختلف علاقوں خصوصاً گاؤں وغیرہ میں جا کر اپنے لڑکوں کی شادیاں کرتی ہیں اور وہاں سے دلہنیں اپنے گھر یعنی 50 بلاک میں جب لے کر آتی ہیں تو ان دلہنو ں سے جسم فروشی کا کاروبار کرواتی ہیں۔ کچھ دلہنیں ڈر کی وجہ سے اپنے والدین کو نہیں بتاتیں اور کچھ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔ یہ گروہ چند مہینوں کے بعد پھر نئی دلہنیں اور آ س پاس کے علاقوں سے غریب لڑکیاں ورغلا کر لاتے ہیں اور ان سے جسم فروشی اور منشیات کا کاروبار کرواتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ گروہ نوجوان لڑکوں کو منشیات استمال کرنے اور بیچنے کے لئے قائل کرتا ہے۔ علاقے کے کافی نوجوان لڑکے منشیات کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
جسم فروشی اور منشیات کا کاروبار کرنے والا یہ گروہ اہل علاقہ میں موجود نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو جسم فروشی اور منشیات کا کاروبار کرنے کے لئے ورغلاتے ہیں۔ اس گروہ کی خواتین اہل علاقہ کے گھروں میں جاکر ان کی لڑکیوں اور خواتین کو جسم فروشی کا کام کرنے کے لیے قائل کرتی ہیں، خاص طور پرکسی کی وفات کے موقع پر یہ خواتین ان کی لڑکیوں کو جسم فروشی کے کام کے لیے ورغلاتی ہیں۔
نیا دور ٹی وی سےنویں( 9th) کلاس کی 14 سال کی بچی علیزہ زہرا نے گفتگو کی جس نے صرف اس لئے سکول سے ابنا نام خارج کروایا ہے کیونکہ وہ کہتی ہے کہ جب مجھ سے کلاس میں میرے کلاس فیلو میرے گھر کا پتہ پوچھتے ہیں اور جب میں بتاتی ہوں کہ میں 50 بلاک میں رہتی ہوں تو وہ مجھ سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور مجھے مشکوک نظروں سے دیکتھے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں بھی جسم فروشی کا دھندہ کرتی ہوں یا میرے گھر والے اس کام یا منشیات سے منسلک ہیں۔ علیزہ کے علاوہ مقامی خواتین نے یہ بھی کہا کہ جب ہم سکول سے یا پھر بازار سے گھر لوٹتے وقت کسی رکشے یا کسی بھی گاڑی والے کو کہتے ہیں کہ ہم نے 50 بلاک جانا ہے تو وہ ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتا ہے اور ہنستے ہوئے کہتا ہے کہ کتنے پیسے لیتی ہو ایک رات کے؟ رکشے والے کی یہ بات سن کر ہم لوگ شرم سے ڈوب جاتے ہیں۔ پھر ہم اپنے گھر کا پتہ بتانے کی بجائے ہمارے گھر سے پہلے والے علاقے کا پتہ بتاتے ہیں اور وہاں سے پیدل اپنے گھر آ تے ہیں۔
علاقہ مکینوں نے کئی بار قریبی پولیس اسٹیشن کو اس بارے میں شکایت کی لیکن پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ علاقہ مقامی نے یہ بھی کہا کہ ہم لوگوں نے بہت دفعہ پولیس کو یہاں سے بھتہ لیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ 50 بلاک کا متعلقہ تھانہ ' تھانہ سٹی' ہے جو صرف چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے۔ پولیس کی یہ خاموشی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ بھی اس دھندے میں برابر کی شریک ہے۔ جسم فروشی اور منشیات سے وابستہ یہ گروہ پولیس کو بھتہ دیتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ پولیس ہمارا کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ یہ بات واضح ہے کہ کچھ بااثر لوگ اس گروہ کو سپورٹ کر رہے ہیں جس کو وجہ سے ضلعی انتظامیہ اور پولیس اس گروہ پر کروائی نہیں کرتی۔
.
مقامی لوگوں نے حکومت پنجاب سے درخواست ہے کہ 50 بلاک میں موجود جسم فروشی کے اڈے بند کیے جائیں اور منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس دھندے سے وابستہ لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دے جائے کیونکہ جسم فروش اور منشیات کی وجہ سے ہمارے بچوں کا مستقبل اور صحت دونوں تباہ ہو رہے ہیں، اس گروہ کو یہاں سے فوری طور پر نکالا جائے۔
مقامی لوگوں نے حکومت پنجاب اور ضلعی انتظامیہ سے یہ بھی درخواست کی کہ ہمیں ایک اچھی پہچان دی جائے اور 50 بلاک کا نام تبدیل کر کے کوئی اور نام دیا جائے تاکہ آنے والی نسل کو شرمندگی نہ ہو اور ہمیں بھی وہی عزت ملے جو ہر شریف ونفس انسان کو اور دوسرے علاقے والوں کو دی جاتی ہے. لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمارے بچے سکول اور کالج میں صرف اسی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہیں کیونکہ وہ ایک ایسی جگہ رہتے ہیں جو بدنام بلاک ہے۔ اچھے لوگ بھی اسی بلاک میں رہنے کی وجہ سے پورے ڈیرہ غازی خان میں جسم فروش کے حوالے سے مشھور ہیں۔ لہٰذا فوری طور پر اس بلاک کا نام تبدیل کیا جائے۔
نیا دور ٹی وی ٹیم کے سروے کے مطابق یہ بات واقعی سچ ہے کہ 50 بلاک انتہائی بدنام بلاک ہے۔ لوگ 50 بلاک کے رہائشی ہونے کے باوجود اپنے قومی شناختی کارڈ پر اپنا ایڈریس 50 بلاک لکھوانا پسند نہیں کرتے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ 50 بلاک کو چکلا یا جسم فروشی کے اڈے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لہٰذا حکومت ایک ٹیم تشکیل تیار کرے جو غیر جانبدار ہو اور موقع پر پہنچ کر لوگوں سے مل کر اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرے۔