یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ ایسی کیا فوری ضرورت تھی کہ یہ طیارے خریدے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ مزید طیاروں کی خریداری کی وجہ سے مینٹی ننس کے اخراجات کم ہوئے ہیں۔ 2018-19ء میں یہ اخراجات 415 ملین روپے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں 2021-22ء میں رکھی گئی 300 ملین روپے کی رقم سابق مختص کردہ رقم کے مقابلے میں کم ہے۔
خبر کے مطابق اس کا انکشاف قومی اسمبلی میں بجٹ دستاویزات پیش کئے جانے کے موقع پر ہوا ہے۔ بجٹ دستاویز میں اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ وہ کون سی شخصیات تھیں جنہوں نے یہ وی وی آئی پی جہاز استعمال کئے، لیکن افسران کا کہنا ہے کہ یہ طیارے وزیراعظم عمران خان اور صدر مملکت عارف علوی کے زیر استعمال رہے۔
جنگ نیوز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ طیارے 2015ء میں خریدے گئے تھے۔ ضمنی گرانٹس میں دکھایا جانے والا ایک اور بڑا خرچہ گذشتہ سال جولائی میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے چائنیز شہریوں کے اہل خانہ کو دیے جانے والے معاوضے کی رقم ہے جو 2 ارب روپے دکھائی گئی ہے۔ اس حملے میں 10 چائنیز باشندے ہلاک اور 26 اس وقت زخمی ہوئے تھے جب دہشتگرد نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے مقام پر خود کش حملہ کیا تھا۔
وی وی آئی پی طیاروں کی خریداری کیلئے ضمنی گرانٹ کی منظوری اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے لی گئی تھی۔ اسی بات کا ذکر اب حالیہ بجٹ دستاویز میں کیا گیا ہے جس کی باضابطہ منظوری پارلیمنٹ سے اب مانگی گئی ہے۔
ان پرتعیش طیاروں کو خریدنے کیلئے تحریک انصاف حکومت نے 800 ملین روپے کی گرانٹ وزارت دفاعی پیداوار کیلئے منظور کی۔ اس کے علاوہ مزید 300 ملین ڈالرز دو وی وی آئی پی طیاروں کی دیکھ بھال اور مرمت کیلئے مختص کئے گئے تھے۔
بظاہر لگتا ہے کہ یہ وہی طیارے ہیں جو ختم ہونے والے مالی سال میں خریدے گئے تھے۔ ان طیاروں کی دیکھ بھال کی ذمہ دار وزارت دفاع ہے۔ مختص کردہ رقم ضمنی گرانٹس میں دکھائی گئی ہے۔ یہ وہ رقوم ہوتی ہیں جو بجٹ میں ہر وزارت کیلئے مختص کردہ رقم کے علاوہ ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر ضمنی گرانٹس فوری نوعیت کے پروجیکٹس کیلئے رکھی جاتی ہے۔