حسن نقوی
حالیہ کچھ عرصہ کے دوران پاکستان حقوق نسواں کی جدوجہد کا مرکز بن چکا ہے. خواتین اور باشعور مرد تعلیم کے میدان سے لے کر عوامی مقامات، کارپوریٹ سیکٹر سمیت گھروں میں کام کرنے والی خواتین ملازمائوں کے حقوق اور ان پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں.
ملکی فضاء خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی کے نعروں سے گونج رہی ہے۔ سوشل میڈیا سمیت ہر عوامی فورم پر خواتین کے مارچز اور ان کے ایجنڈے پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں اور ان پر ردعمل منفی ہو یا مثبت، تنقیدی ہو یا تعمیری، یہ اس بات کی گواہی ہے کہ پدرشاہی نظام مسلسل کمزور ہو رہا ہے.
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے نئے اور جدت پسند تصورات کو قبول عام حاصل ہونے میں ایک عرصہ صرف ہو جاتا ہے اور خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی بھی پاکستان کے رجعت پسند معاشرے کے لیے ایک ایسا ہی تصور ہے۔
چین، وسط ایشیائی ممالک اور مغرب سمیت دنیا کے مختلف ملک خواتین کو بااختیار بنا کر ترقی کر رہے ہیں اور ملکی فلاح کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں اور ہم بےحیائی اور اسلام دشمنی کا راگ الاپ رہے ہیں.
اس طرزعمل کے ذمہ دار ایک تو وہ لوگ ہیں جو عہد حاضر کے تقاضوں کا ادراک نہیں رکھتے اور درحقیقت اب بھی سماجی جمود کے ہی قائل ہیں اور انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے کیا مضمرات برآمد ہو رہے ہیں.
اس صورت حال کی ذمہ داری تعلیم یافتہ اور آسودہ حال طبقے پر بھی عائد ہوتی ہے جو نچلے متوسط طبقے میں تبدیلی لانے میں ناکام رہا ہے۔ حقیت حال یہ ہے کہ دونوں طبقوں کو ہی اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ ساری جدوجہد رائیگاں جا سکتی ہے۔
عہد حاضر کے وہ مرد جو اس تحریک سے خوف زدہ ہیں کہ ’’ کہیں یہ ایک اور مغربی حملہ تو نہیں؟‘‘ وہ دراصل اس تحریک کے مقاصد سے درست طور پر آگاہ نہیں ہیں.
خواتین کا بااختیار ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے. ایک پڑھی لکھی خاتون اگر ملازمت کرنا چاہے گی تو گھر اور معاشرہ خوشال ہو گا اور اگر گھریلو ذمہ داریاں انجام انجام دینا چاہے گی تو گھریلو معاملات میں بہتری آئے گی.
ہم مردوں کو غیرت کے نام پر تنقید کے نشتر چلانے سے قبل خواتین کی ریلیوں میں بلند کیے جانے والے نعروں کا جائزہ لینا چاہیے اور ایمان داری سے یہ سوچنا چاہئے کہ تمام مطالبے ان زیادتیوں کو ختم کرنے کے لیے ہیں جو ہم مرد اپنے گرد دیکھتے ہیں یا پھر خود ان زیادتیوں میں ملوث رہتے ہیں.
حقوق نسواں کی تحریکوں کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے جن کا مقصد پدرشاہی نظام کو بنیادوں سے ختم کرنا نہیں ہے بلکہ مرد و خواتین کے ایک دوسرے کے ساتھ رویوں پر مسلسل نظرثانی کرنا بھی ہے. حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کو بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سے وہ غلطیاں نہ ہوں جو طویل عرصہ تک پدرشاہی سماج میں مردوں سے ہوتی رہی ہیں کیوں کہ ایک صحت معاشرے کے لیے صنفی توازن نہایت اہم ہے تاکہ سماج کا کوئی ایک طبقہ بھی نظرانداز نہ ہو۔