اس سے قبل چھ مارچ کو آیت اللہ نے نمازِ جمعہ ملتوی کرنے کا حکم دیا تھا۔ یاد رہے کہ عراق کی وزارت صحت نے شہریوں سے عوامی مقامات پر رش پیدا کرنے اور اکٹھے ہونے سے پرہیز کی اپیل کی ہے۔ آیت اللہ سیستانی نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹروں اور وزارتِ صحت کی تمام ہدایات پر عمل کرنا واجب ہے۔
آیت اللہ سیستانی کا یہ حکم ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایران اور عراق کے مذہبی حلقے کرونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں شش و پنج اور ابہام کا شکار تھے۔ ایران کے کچھ علما اور دیسی حکیم دعاؤں، سازش کی کہانیوں اور عجیب و غریب معجونوں کی تشہیر کر کے اس قدرتی آفت کے بارے میں عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔
مشہد میں مقیم ایک پاکستانی عالم مولانا جان علی شاہ کاظمی بھی یوٹیوب، فیس بک اور واٹس اپ کی مدد سے اردو میں متعدد جاہلانہ پیغامات نشر کر رہے ہیں جن میں پاکستان کے لوگوں کو ’طبِ اہلبیت‘ کو جواز بنا کر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور ایران سے معجون منگوانے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔
یہ معجون اپنے ساتھ کرونا وائرس کے جراثیم لا سکتی ہے کیونکہ ایسی معجونوں کی تیاری میں جدید میڈیکل سائنس کے وضع کردہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس نام نہاد طب کی حقیقت ایک مضمون بعنوان ’قم کا ابوجہل‘ میں واضح کی جا چکی ہے۔ امید ہے کہ آیت اللہ سیستانی کا حکم اس سلسلے میں شکوک و شبہات کو ختم کر کے دینی حلقوں کو علم کا مطیع بنائے گا اور یوں کرونا وائرس کی وبا کے کسی بڑے سانحے میں تبدیل ہونے کے خطرے کو ٹال دے گا۔
کرونا وائرس وطنِ عزیز میں بھی خاموش قاتل کی طرح پھیل رہا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان میں آیت اللہ سیستانی کے مقلدین ان کی اس ہدایت پر عمل کریں گے۔ باقی مسالک کے علما سے بھی اس سلسلے میں فتوے جاری کرنے کی امید کی جا رہی ہے۔ لاہور میں دس مارچ سے دیوبند مسلک کا تبلیغی اجتماع شروع ہو چکا ہے جو ملک بھر میں کرونا کی وبا کے پھیلنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کا نظامِ صحت کسی بڑی وبا سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔