ریکوڈک پر عمران خان کے بیان پر اختر مینگل کی تقریر کے دوران ایوان غیر سنجیدہ، قہقہے لگتے رہے

01:33 PM, 11 Mar, 2020

عبداللہ مومند
اسلام آباد: منگل کی صبح ایوان میں نہ تو وزیر اعظم موجود تھے اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر۔ بلاول بھٹو زرداری اور شاہد خاقان عباسی بھی اجلاس سے غائب تھے۔ آج پرائیوٹ ممبرز بل کا دن تھا اور ایجنڈہ نمبر دو پر گوادر سے آزاد حیثیت میں ایم این اے محمد اسلم بھوتانی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے آغا حسن بلوچ اور محمد ہاشم نوتیزئی کا توجہ دلاؤ نوٹس تھا جس میں وزیر توانائی کی توجہ وزیر اعظم پاکستان کے ریکوڈک کے اثاثہ جات فروخت کر کے قومی قرضہ اتارنے کا اعلان اور اس سے بلوچستان کے عوام میں پیدا ہونے والی گہری تشویش تھی۔

محمد اسلم بھوتانی نے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات شروع کی تو پارلیمان میں شور شرابہ تھا اور کوئی بھی، سوائے سپیکر کے، بلوچستان کی عوام میں اس اعلان سے پیدا ہونے والی تشویش کو سنجیدہ نہیں لے رہا تھا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان وزیر مواصلات مراد سعید کے ساتھ کسی بات پر قہقہے لگا رہے تھے۔ وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل اور پاکستان تحریک انصاف کی ملیکہ بخاری کسی موضوع پر قہقہے لگا رہی تھی جب کہ تحریک انصاف کی عندلیب عباس بھی ایک خاتون ایم این اے کے ساتھ محو گفتگو تھی۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا رویہ بھی غیر سنجیدہ تھا اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف بھی کسی کے ساتھ کسی بات پر ہنس رہے تھے جب کہ اپوزیشن کے  کچھ ممبران نے کرسیوں کا رخ دوسری جانب کیا تھا اور خوب قہقہے لگ رہے تھے اور محمد اسلم بھوتانی کا حال وہی تھا کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔

محمد اسلم بھوتانی صاحب نے پارلیمان کے غیر سنجیدہ ماحول میں اپنی تقریر جاری رکھی اور کہا کہ بلوچستان میں ساٹھ سال پہلے سوئی گیس دریافت ہوئی اور پورے پاکستان میں پھیل گئی مگر کوئٹہ کے اطراف میں لوگ آج بھی سوئی کے گیس کے لئے ترس رہے ہیں۔ انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بلوچستان کی عوام کے اثاثے فروخت کر کے قومی قرضہ اتارا جائے، اس سے نہ صرف بلوچستان میں بسنے والے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ اعلان نفرتوں کو جنم دے گا جس کا ادراک ضروری ہے۔

اس کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر جان مینگل اپنی سیٹ پر کھڑے ہوئے تو پھر بھی پارلیمان کے اندر کوئی سنجیدگی نہیں آئی اور ہر طرف شور شرابہ جاری رہا۔ سردار اختر جان مینگل نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر پاکستان کا ریکوڈک کے اثاثے بیچنے کا اعلان اٹھارہوں ترمیم پر حملہ ہے کیونکہ صوبائی خود مختاری کے قانون کے بعد وزیر اعظم یہ اعلان نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ذخائر پہلے بھی لوٹے گئے مگر بلوچستان کے عوام کو کچھ بھی نہیں ملا۔ بلوچستان اس وقت تین ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے مگر صوبے کے عوام کو 600 میگا واٹ بجلی فراہم نہیں کی جا رہی ہے جو وہاں کے عوام کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بلوچستان کے ذخائر سے سو ارب روپے کمائے گئے تو 98 ارب روپے وفاق اور چائنہ نے لیے جب کہ دو ارب روپے بلوچستان کی حکومت کو ملے جو ناانصافی کے مترادف ہے۔ انہوں نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی صورت بلوچستان کے ریکوڈک اور دیگر اثاثے بیچنے نہیں دیں گے اور یہ اٹھارہویں ترمیم میں مداخلت ہے کیونکہ وزیر اعظم یہ بیان نہیں دے سکتا۔ جس کے بعد سپیکر نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور کو جواب دینے کے لئے دعوت دی اور وہ اپنے سیٹ پر کھڑے ہو گئے۔

علی محمد خان نے کہا کہ عمران خان صاحب دنیا کے ان چند لیڈران میں ایک ہیں جو ہر چیز کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ تقریر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان بلوچستان کے عوام کے ساتھ بہت مخلص ہیں اور انہوں نے یہ بات کسی تنگ نظری میں نہیں کہی ہوگی کیونکہ وہ نسل پرست نہیں ہیں اور ہم کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھائیں گے جس سے بلوچستان کے عوام کی دل آزاری ہو۔
مزیدخبریں