ترجمان ای سی پی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد 10 مارچ کو انتخابی ضابطہ اخلاق پر نظرِ ثانی کردی۔
بیان میں بتایا گیا کہ نظرِ ثانی کے بعد پارلیمینٹیرینز کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے تاہم عوامی عہدیداروں کے الیکشن مہم میں حصہ لینے پر پابندی ہوگی۔
خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے جاری کردہ آرڈیننس کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017 میں دفعہ 181(اے) کا اضافہ کر دیا گیا تھا۔
نئی شق پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی یا بلدیاتی حکومت کے منتخب رکن بشمول آئین یا کسی دوسرے قانون کے تحت کسی بھی عہدے پر فائز رکن کو اجازت دیتی ہے کہ وہ کسی بھی علاقے یا حلقے میں عوامی جلسوں میں جاسکیں یا خطاب کرسکیں۔
جس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد حکومت انتخابات میں اپنا اثر و رسوخ اور ریاستی وسائل استعمال کر سکے گی، جس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ تمام امیدواروں کو مہم چلانے کے لیے ایک جیسے مواقع نہ ملیں۔
دوسری جانب ای سی پی کے ساتھ ہونے والے مشاورتی اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سوا حکومتی اتحادیوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی قانون میں حالیہ ترمیم کے ذریعے اہم عوامی عہدیداروں کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی مخالفت کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں تقریباً 17 سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی، اجلاس کے دوران آئندہ عام انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے رائے طلب کی گئی تھی۔
جس میں زیادہ تر جماعتوں نے انتخابی ضابطہ اخلاق میں آرڈیننس کے ذریعے کی گئی حالیہ تبدیلی کی مخالفت کی، حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں کا کہنا تھا کہ عوامی عہدیداروں کو انتخابی مہم میں حصہ لینے سے روکا جانا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے نمائندوں کا اجلاس کے دوران کہنا تھا کہ ای سی پی صدارتی آرڈیننس کو مدنظر رکھتے ہوئے ضابطہ اخلاق کو ریگولیٹ کرے، ان کا اصرار تھا کہا کہ آئین کے تحت کسی بھی شہری سے نقل و حرکت کی آزادی چھینی نہیں جا سکتی۔
تاہم زیادہ تر دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے رائے دی کہ قانون سازوں کو ان علاقوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جہاں انتخابات ہونے ہیں اور وہاں انتخابی شیڈول کا اعلان کیا جا چکا ہو۔