لاہور میں انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب عثمان انور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا کہ کسی بھی شہری کی ہلاکت کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور پی ٹی آئی کارکن تشدد سے جاں بحق نہیں ہوا ہے
وزیراعلیٰ نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ پولیس تشدد سے ہلاکت نہیں ہوئی۔انسپکٹر جنرل پولیس، سی سی پی او اور پولیس کی ٹیم نے فوراً اس اطلاع پر کام شروع کیا۔
پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے نائب صدر راجہ شکیل کی جانب سے یاسمین راشد کو رات ساڑھے آٹھ بجے حادثے کی اطلاع دی گئی۔یاسمین راشد نے کہا آپ 9 مارچ کو زمان پارک آ جائیں میں آپ کی لیڈرشپ سے ملاقات کراؤں گی۔ طے شدہ تاریخ پر راجہ شکیل زمان پارک آتے ہیں۔ یاسمین راشد سے ملاقات ہوتی ہے اور پھر یہ انڈرگراؤنڈ ہو جاتے ہیں۔راجہ شکیل اس دوران زبیر نیازی سے بھی رابطہ کرتے ہیں۔
محسن نقوی نے مزید کہا کہ یاسمین راشد نے عمران خان کو بھی بتا دیا تھا کہ یہ حادثہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود یاسمین راشد اور دیگر لوگوں نے زیادتی کی۔ انہوں نے جاں بحق نوجوان کے بزرگ والد کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے۔ متوفی کے والد کو کہا گیا کروڑ روپے دیں گے، آپ نے کھڑے رہنا ہے۔ پھر بھی پریس کانفرنس کی گئی اور ہم پر الزام لگایا گیا۔ کہا گیا کہ محسن نقوی کو ہم نے نہیں چھوڑنا، یہ قابو آیا ہے۔
محسن نقوی نے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اور کہا کہ ایک طرف اسلام کی بات کرتے ہیں دوسری طرف جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔ براہ کرم لوگوں کو گمراہ نہ کریں اور نہ ہی جھوٹ بولیں۔اسلام میں جھوٹ بولنے اور جھوٹا الزام لگانے کی بڑی سزا ہے۔
لاہور میں دفعہ 144 لگانے پر وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8 مارچ کو عورت مارچ کی اجازت لاہور ہائی کورٹ نے دی۔تھریٹ الرٹ کا لیول بہت زیادہ ہے اس لئے دفعہ 144 نافذ کی۔اگر آپ نے ریلی نکالنی تھی تو ایک روز پہلے یا بعد میں نکال لیتے۔ پولیس کو جس انداز سے دھمکیاں دی گئیں وہ قابل افسوس ہے۔غلط بات بھی کی جاتی ہے اور جھوٹ بھی بولا جاتا ہے۔ سیاست میں جو مرضی کریں لیکن جھوٹ نہ بولیں۔ یہ بہت حساس وقت ہے، 30 اپریل کو الیکشن ہونے ہیں اور آپ ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ اپنی پسند کے مطابق سیاست کر سکتے ہیں۔ جب میری وزارت اعلیٰ کیلئے نامزدگی ہوئی، اس وقت بھی سیاست کی گئی۔سازش کا الزام لگایا گیا اور اب قتل کا الزام لگا دیا گیا ہے۔
محسن نقوی نے کہا کہ ہماری بھی فیملی اور رشتے دار ہیں۔اگر میں اس عہدے پر نہ ہوتا تو کسی اور طرح جواب دیتا۔ لیکن میں پریشر میں نہیں آؤں گا،دھمکی گالم گلوچ ٹوئٹ سے کسی صورت سر نڈر کرنے والا نہیں ہوں۔میں اپنا ذاتی معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں اور اللہ انصاف کرنے والا ہے۔
آئی جی صاحب کو تمام ثبوت مظلوم والد کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جاں بحق نوجوان کے والد لیاقت علی نے ویڈیو پیغام کے ذریعے انصاف کی اپیل کی۔ پنجاب حکومت متوفی کے اہل خانہ کی پالیسی کے مطابق مالی امداد کرے گی۔
انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا کہ پی ٹی آئی کارکن علی بلال کی لاش شام 6 بجکر 52 منٹ پر کالے رنگ کی گاڑی میں سروسز اسپتال لائی گئی اور گاڑی کے ڈرائیور کی شناخت جہانزیب کے نام سے ہوئی۔ ڈرائیور جہانزیب اور عمر ویگو ڈالے میں جاں بحق نوجوان کو لے کر سروسز ہسپتال لے کر آئے۔گاڑی کے مالک پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے نائب صدر راجہ شکیل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ویگو ڈالے میں جاں بحق نوجوان کا خون بھی موجود تھا جس کا فرانزک کرایا گیا۔ 31 کیمروں کی مدد سے وارث خان روڈ سے گاڑی کو برآمد کیا گیا ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ بلال کے والد لیاقت علی نے بیٹے کی موت کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ ہم جاں بحق نوجوان کے والد لیاقت علی کو تمام تفتیش سے آگاہ کریں گے اور ثبوت پیش کریں گے۔ جاں بحق نوجوان کے خاندان کو ہر صورت انصاف فراہم کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر وزیراعلیٰ اور پولیس کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کیا گیا۔مہم چلائی گئی کہ اس ہلاکت کو پولیس اور سسٹم کو داغدار کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ سوشل میڈیا کی ایک ایک ویڈیو کا جواب دیں گے اور پورے کیس کو عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔ کس کی کب سیاسی لیڈر سے بات ہوئی۔ میرے پاس تمام سی ڈی آرز موجود ہیں۔ قانونی عمل مکمل ہوگا۔
پولیس چیف نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف جعلی ایف آئی آر درج کرنے کی درخواستیں سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔ ایک انٹیلی جنس افسر اور ایس پی کی جعلی آڈیو وائرل کی گئی۔ پولیس کی کمانڈ کو گالیاں دی گئیں۔ پولیس پر پتھراؤ کیا گیا، اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے انتہائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔تفتیشی ٹیم نے جانفشانی سے اپنا کام مکمل کیا، فیصلہ عدالت میں ہوگا اور تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ جہاں پولیس نے زیادتی کی ہے وہاں بھی قانونی ایکشن لیں گے۔
آئی جی پولیس نے بتایا کہ جس پر فیصلہ کیا گیا کہ معلومات کی سچائی کی تصدیق تک کوئی تفصیلات شیئر نہیں کی جائیں گی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ دباؤ کے سامنے جھک جائے گا تو وہ غلط ہے۔