تحریر: تحریم عظیم
ماہِ رمضان یوں تو ایک برکتوں والا مہینہ ہے لیکن پاکستان میں اب یہ خوف کی علامت بن چکا ہے۔ ہر سال رمضان میں کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے بچنے کیلئے شہروں کی سیکیورٹی معمول سے بڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود ہر سال کئی نا خوشگوار واقعات اس ماہِ مبارک میں واقع ہوتے ہیں۔
بروز منگل پاکستان میں پہلا روزہ رکھا گیا تاہم اگلے ہی دن لاہور میں داتا دربار کے باہر ایک خود کش دھماکہ ہوا جس میں بارہ افراد ہلاک جبکہ چھبیس زخمی ہوئے۔ یوں ایک خود کش بمبار اپنے تئیں بارہ افراد کو جہنم واصل کر کے جنت کو سدھار گیا۔ ان خود کش بمباروں کو جنت میں پہنچانے کے لیے جتنی بھاری قیمت ہم نے چکائی ہے شائد ہی کسی اور قوم نے چکائی ہو۔
جنت کا لالچ دنیا کی تمام آسائشوں سے بڑھ کر ہے، اتنا تو ہمیں سالوں سے لاشیں اٹھا اٹھا کر پتہ لگ ہی چکا ہے۔ دو چار مہینے گزرتے ہیں کہ کوئی جنت کا طلب گار سینے پر خود کش مواد باندھے ہجوم میں چلا آتا ہے، یہ خود تو جانے جنت میں پہنچتا ہے یا نہیں، ہجوم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو کوئی زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو جاتا ہے۔
ان خود کش بمباروں کی اوسط عمر پندرہ سے بیس سال کے درمیان ہوتی ہے جس خود کش بمبار نے داتا دربار کے باہر حملہ کیا، اس کی عمر بھی پندرہ برس بتائی جا رہی ہے۔ ان لڑکوں کی برین واشنگ کچھ ایسے کی جاتی ہے کہ یہ اس دنیا سے فحاشی کے خاتمے اور جنت کی ترغیب میں اپنی زندگی تک داؤ پر لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ امید یہ ہوتی ہے کہ حوریں پھولوں کے طشت اٹھائے ان کی راہ تکتی ہوں گی۔ اس جنت کے لالچ میں جانے کتنے گھر برباد ہوئے، کتنوں کی زندگیاں تباہ ہوئیں اور ریاست کو کس قدر نقصان اٹھانا پڑا۔
اس دہشت گردی کی پیداوار تو کیا روکنی تھی، ہماری حکومت تو سیف سٹی پراجیکٹ پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اپنے شہروں کو محفوظ نہیں بنا سکی۔ سونے پہ سہاگہ نئے پاکستان کی نئی حکومت عام سکولوں کے فنڈز میں سے رقم ایک ایسے مدرسے کو دے رہی ہے جو دہشت گردوں کی یونیورسٹی کے طور پر مشہور ہے۔
2010ء میں داتا دربار پر ہونے والے حملے کے بعد وہاں سیکیورٹی کے انتظامات بڑھا دیے گئے تھے لیکن نو سال بعد اسی سیکیورٹی فورس پر حملہ ہوا جو اپنے آپ میں ایک واضح پیغام ہے۔ حملے کے بعد سیف سٹی کے کیمرے متحرک ہوئے اور فوری طور پر دہشت گرد کی فوٹیج جاری کر دی گئی۔ ایسی چستی بھی صرف ہمارے ہاں ہی دیکھنے میں آتی ہے۔
کچھ گھنٹوں بعد چمن سے ایک دھماکے کی خبر آئی جس میں قبائلی رہنما ولی خان اچکزئی سمیت تین دیگر لوگ ہلاک ہو گئے۔ ایک ہی دن ملک میں دو دھماکے ہونا یقیناً تشویشناک ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے وزیروں نے مذمتی بیان جاری کیے، ہلاک ہونے والوں کو شہادت کا چولہ پہنایا اور اللہ اللہ خیر صلہ۔
مارنے والا بھی جنتی ٹھہرا اور مرنے والا بھی، پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے، آگے بھی یہی ہو گا۔ ہم کل بھی اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے آئیں ہیں، آگے بھی ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے۔ اب کوئی مذمتی بیان دل پر لگے زخموں پر مرہم نہیں رکھتا۔ ہمارا جنت سے دل بیزار ہو گیا، بچپن میں جنت کے جتنے سہانے خواب دیکھتے تھے، وہ تمام ہوئے۔ اب دل اس جنت کے خیال سے ہی لرزتا ہے، اس کی دودھ اور شہد کی نہروں میں ہمیں اپنے پیاروں کا خون نظر آتا ہے، اس کے باغوں میں ان کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے، یہاں کا امن ہمیں ہولائے دیتا ہے۔ اس کے میوہ جات اور پھل دیکھ کر ہمیں اپنے بچوں کی بھوک اور پیاس یاد آتی ہے۔ ہم سے اب یہ جنت نہ دیکھی جاتی ہے نہ اس کا ذکر سنا جاتا ہے۔ ہمیں اس جنت سے خوف آتا ہے۔