ایسے میں حال ہی میں کرونا وائرس کے خلاف بلڈ پلازما کا استعمال طبی حلقوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ گو کہ اسکے کوئی ٹھوس نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے لیکن ماہرین پر امید ہیں کہ یہ طریقہ کرونا وائرس کے شکار مریضوں کو ٹھیک کرنے میں جلد کامیاب ہوجائے گا۔
علاج کی اس تکنیک کے تحت ایسے مریض جو کرونا وائرس کے مرض سے شفا یاب ہو جاتے ہیں انکے خون کا ایک مخصوص حصہ جو ایسے خلیئے بنا چکا ہوتا ہے جو کہ مستقبل میں کرونا وائرس کے جسم میں داخلے پر اسے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسے ان افراد کے خون سے نکال کر ایسے مریضوں کے خون میں شامل کر دیا جاتا ہے جن کے جسم میں کرونا وائرس موجود ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ مخصوص خلیئے اگلے مریض کے جسم میں موجود وائرس کو ختم کردیتے ہیں۔
اس تکنیک کا استعمال برطانیہ بھارت، چین سمیت پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب اس کے حوالے سے ایک حیران کن دعویٰ سامنے آگیا ہے جس کے مطابق کرونا کے علاج کے لئے استعمال کی جانے والی یہ تکنیک اصل میں آج سے تقریباً ساڑھے 14 سو سال قبل خلیفہ چہار حضرت علی شیر خدا نے دریافت کرکے بیان کی تھی۔
سوشل میڈیا پر مزاحیہ میمز بنوالینے کے لئے مشہور نہیں بتاؤں گا فیم معروف دینی شخصیت علامہ ضمیر اختر نقوی نے یہ انکشاف کیا ہے۔ ضمیر اختر نقوی 5 مئی کو متنازعہ رئیلٹی ٹی وی سٹار وقارزکا کے ساتھ ایک آن لائن اسلامی سیکس ایجوکیشن شو میں شریک تھے۔ جہاں پر ان سے سوال ہوا کہ کرونا کا علاج جو آپ نے کہا تھا کہ میں نہیں بتاؤں گا وہ بتا دیجئے۔
جس پر انہوں نے کہا کہ میں بتا چکا ہوں دوبارہ بتا دیتا ہوں کہ اس وقت دنیا کرونا وائرس سے لڑنے کے لئے بلڈ پلازما کی منتقلی کی جس تکنیک کو اپنا رہی ہے دراصل میں نے ہی وہ تکنیک بتائی تھی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ علاج کا یہ طریقہ انکی کوئی ذہنی اختراع نہیں بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خطبے سے اخذ کیا ہے کیونکہ یہ تفصیلی طور پر انکے خطبے میں موجود ہے۔ انہوں نے خطبے کے بارے میں مخصوص کرکے تو نہیں بتایا تاہم انکا کہنا تھا کہ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ خون کی بیماری کا علاج خون میں ہے۔ کرونا وائرس خون کی بیماری ہے۔ اس لئے اس کا علاج خون میں ہے۔ پلازما خون کا حصہ ہے اور اسے ہی دوسرے جسم کے خون میں شامل کرکے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
https://twitter.com/ZakaWaqar/status/1257769127386550272
اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ اس علاج کا ایک اور حصہ ہے وہ ہے پاکیزہ خون کا۔ وہ پاکیزہ خون انکے پاس ہے وہ خود کسی مریض کے منہ میں وہ ڈالیں گے اور وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس پر وقار ذکار نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا کہ علامہ صاحب اس کا مطلب اگر مجھے کرونا وائرس ہوجائے تو میں تو سیدھا آپ کے پاس آؤں۔ جس پر علامہ نے انہیں اجازت دے کر رخصت چاہی۔
پاکیزہ خون کا قصہ تو ابھی تک پردوں میں ہے تاہم حضرت علی کے خطبے میں پلازما تھراپی کے انکشاف نے اسلامی طبی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔