پاکستان کا دل اور کبھی سکولوں ، کالجوں اور باغوں کا شہر کہلانے والے شہر ، لاہور کے دل یعنی مال روڈ کے ریگل چوک پر واقع لکشمی مینشم میں چھپے نامور شخصیات کے مسکن ایک ایک کرکے گرائے جارہے اور موبائل و الیکٹرانک پلازوں کی نذر کئے جارہے ہیں۔ جن میں پاکستان کے " ژاں پال سارتر " اور اردو کے "موپساں " شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ، سابق نگران وزیراعظم ملک معراج خالد ، معروف مؤرخ عائشہ جلال ، ممتاز انڈین سیاست دان (سابق مرکزی وزیر) منی شنکر آئر اور معروف اداکارہ بیگم خورشید شاہد نے اپنی زندگی کا بہترین وقت گزارا۔
پنجاب کے ایک سابق وزیراعلیٰ جنہوں نے علم دوست ، ادب دوست اور انقلاب دوست ہونے سمیت کیا کیا سوانگ نہیں رچایا ، جو عوامی اجتماعات میں "قائد عوام" کا سٹائل اپنانے سے لے کر شاعر عوام حبیبِ جالب کی انقلابی نظمیں سناتے نہیں تھکتے تھے ، یہاں تک کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے خود کو " ادیب دوست " ثابت کرتے ہوئے مال پر واقع ادیبوں شاعروں کے تاریخی ٹھکانے " پاک ٹی ہاؤس " کو بحال کرواتے ہوئے اپنے بڑے بھائی نوازشریف کے ہاتھوں اس کی "ری لانچنگ" کروائی، اسی " شوباز شریف " کے دور میں انہی کی جماعت کے ٹریڈرز ونگ کے ایک رہنما اور ہال روڈ کی مرکزی الیکٹرانکس مارکیٹ کی انجمن تاجران کے صدر بابرندیم بٹ نے ہال روڈ اور بیڈن روڈ کے درمیان واقع تاریخی " لکشمی مینشن" کو "فلیٹ در فلیٹ" خرید کر منہدم کرنے اور یہاں کمرشل پلازے تعمیر کرنے کا آغاز کیا، جہاں اب سمگل شدہ " ٹچ موبائل" فونز کی دکانیں کھل چکی ہیں۔
" لکشمی مینشن" 100 سال سے زائد عرصہ قبل ، متحدہ ہندوستان میں لاہور کی گردھاری لال جیولرز فیملی نے 1938 میں ہندوستان کنسٹرکش کمپنی سے ذاتی گھر کے طور پر تعمیر کروایا تھا جو بعد ازاں " لکشمی انشورنس کمپنی " نے خرید لیا جہاں قیام پاکستان کے بعد اردو کا لیجنڈ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اپنی اہلیہ اور 1 سالہ بڑی بیٹی نگہت بشیر کے ساتھ آکر اس مینشن کے ایک فلیٹ میں سکونت پذیر ہوا۔
بعدازاں لاہور ، کراچی اور پشاور میں واقع لکشمی انشورنس کمپنی کی ملکیت بیشتر جائدادیں سابق آرمی چیف و ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی والدہ اور خالہ کو claim میں الاٹ ہوگئیں جو 50 کی دہائی میں ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ یہ انکشاف سابق باوردی صدر جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں ان کے سگے خالو نے لکشمی چوک پر واقع تاریخی " لکشمی بلڈنگ " میں میرے ساتھ انٹرویو میں کیا تھا۔
منٹو کی بڑی بیٹی نگہت بشیر کی شادی یہیں ہوئی جس میں شرکت کے لئے ملکہ ترنم نورجہاں منٹو کے گھر آئیں ، جو ایک دفعہ بعد میں بھی یہاں آئیں جبکہ نگہت کی چھوٹی بہنوں نصرت جلال اور نزہت ارشد کے علاوہ متعدد کزنز کی شادیاں بھی یہیں ہوئیں۔ بٹوارے کے موضوع پر لکھا گیا منٹو کا شاہکار تاریخی افسانہ " ٹوبہ ٹیک سنگھ " بھی اسی گھر میں تخلیق ہوا۔ مایہ ناز خاتون مؤرخ عائشہ جلال کے والد حامد جلال بھی منٹو کے گھر کے اوپر والے فلور میں رہتے تھے جبکہ ممتاز میڈیکل پروفیسر ڈاکٹر محمود علی ملک ، ماہر امراض شوگر و ماہر درافرازیات ( endocrinologist ) بھی اسی تاریخی بلڈنگ میں مقیم رہے ، جنہوں نے اس یادگار ورثہ کو بچانے کے لئے بہت جان لڑائی۔
منٹو کی بڑی بیٹی اپنی فیملی کے ساتھ گزشتہ کچھ عرصہ تک یہیں سکونت پذیر رہیں، سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کی وزیر ثقافت ، فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے ان کے گھر آکر اس گھر کو بطورِ یادگار محفوظ بنانے کا حکومتی آئیڈیا دیا تو نگہت پٹیل نے اسے سراہتے ہوئے کہا " ہاں ، اسے لائبریری یا پاک ٹی ھاؤس جیسے چائے خانے میں تبدیل کردینے سے آئندہ نسلوں تک یہ ورثہ منتقل ہوتا رہے گا"۔ تاہم جب منٹو کی بیٹی نے اسے حکومت کو donate کرنے کی بجائے فروخت کرنے کی تجویز دی تو سلیمہ ہاشمی دوبارہ کبھی نہیں یہاں آئیں اور نہ انہوں نے اس کے بعد منٹو کے ورثاء سے کوئی رابطہ کیا ، البتہ ذرائع کے مطابق انہوں نے صوبائی محکمہ آرکیالوجی کو اس حوالے سے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ذریعے منٹو کا گھر خرید کر اسے بطور تاریخی ورثہ محفوظ کرنے کا پراسیس مکمل کرنے کا حکم دے دیا تھا مگر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے فائل ہی دبا دی۔
ٹی وی اور فلم کے ممتاز ایکٹر سلمان شاہد اور ان کی والدہ بیگم خورشید شاہد بھی اسی بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے جو خود ایک معروف اداکارہ رہی ہیں ، ان کا انٹرویو بھی راقم نے لکشمی مینشن والے گھر ہی میں کیا تھا۔ یہیں سکونت پذیر نامور " درویش " سیاست دان ملک معراج خالد ( سابق نگران وزیراعظم ) معمول کے مطابق اکثر ہال روڈ کے شروع میں واقع آغا امیر حسین کی کتابوں کی دکان " کلاسیک " پر کھڑے ملتے تھے۔ سابق بھارتی یونین (وفاقی) منسٹر و معروف سیاست دان منی شنکر آئر کی تو پیدائش ہی لکشمی مینشن میں ہوئی تھی۔ وہ جب انڈین فارن سروس میں تھے اور 1978 میں جب کراچی کے بھارتی قونصل خانے کا افتتاح کرنے آئے تو پہلی بار اپنی جائے پیدائش دیکھنے لکشمی مینشن آئے ، ان کی خواہش پر خورشید محمود قصوری انہیں ان کی جنم بھومی دکھانے لاہور لائے ، 2007 میں اپنے اگلے دورہ پاکستان میں بطورِ یونین منسٹر دوبارہ آئے تو منی شنکر آئر کو ان کی جنم پتری ( برتھ سرٹیفیکیٹ ) بھی دیا گیا تھا۔ منی شنکر آئر منٹو فیملی کی دعوت پر 2010 میں ایک بار پھر لکشمی مینشن آئے۔
اسی طرح چند سال قبل ایک اور انڈین منتری پاکستان کے دورے پر آئے تو اپنا آبائی گھر دیکھنے ایئرپورٹ سے پہلے سیدھے لکشمی مینشن آئے تھے . لکشمی ہندو مذہب میں مایا یعنی دولت کی دیوی کا نام پے اور اسی سے موسوم یہ یادگار عمارت بالآخر کمرشلائز ہو کر " مایا " کے پچاریوں کی نذر ہوتی جارہی ہے۔