موجودہ دور میں جب انسان ایک مہذب اور منظم زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ جدید طرز زندگی کی طرف بڑھ رہاہے ویسے ہی اپنے حقوق اور فرائض سے بھی روشناس ہورہا اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی مخصوص شخص ، طبقے یا گروہ کے لوگوں کو حکومت وقت کے کسی فیصلے پہ اختلاف اور تحفظات ہوں تو وہ حکومت وقت کے سامنے اپنی بات منوانے کیلئے احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔
ماضی کے دریچوں میں جھانکنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دھرنا کلچر ہمارے نظام کا حصہ رہا ایک سروے کے مطابق اسلام آباد میں روز تقریباً تین دھرنے ریکارڈ کیے جاتے ہیں جو بعد میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کرکے اختتام پزیر ہوتے ہیں۔ یعنی دارالحکومت تو دھرنوں کا گڑھ بن چکا ۔ یہ دھرنے اور احتجاجی مظاہرے کیسے نظام زندگی کو مفلوج کرتے ہیں اسکی روشن مثال دارالحکومت اسلام آباد ہے جہاں ہمارے وزیراعظم عمران خان نے 126 روز کا دھرنا دے کر نہ صرف تاریخ رقم کی بلکہ عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچایا ۔ بجلی کے بلوں کو سر عام جلا کر جمہوریت کا قتل عام کیا اور پی ٹی کے دفتر پہ حملہ کرکے حق آزادی رائے کو اپنی موت آپ مارا گیا۔
بلاشبہ کسی بھی معاملے پر احتجاج ریکارڈ کروانا کسی بھی فرد اور گروہ کا جمہوری حق ہے ۔ یہ آزادی رائے کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اس آزادی رائے کے نام پہ دوسرے شہریوں کے حقوق کی پامالی کسی صورت برداشت نہیں اور نہ ہی اس پہ کوئی سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے
یہ دھرنے پولیس انتظامیہ اور حکومت کی قابلیت کو جانچنے کا ایک اہم پیمانہ ہیں ۔ ان دھرنوں سے تین طرح کے اخراجات برداشت کر نے پڑتے ہیں ۔ پہلے وہ اخراجات جن میں کنٹینرز ، پولیس اور سیکیورٹی فوسز کی تعیناتی ، ایمبولینسز اور ایمرجنسی سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔ فقط پٹرول اور کنٹینر کے اخراجات روزانہ 10 ملین بن جاتے ہیں ۔ جبکہ دوسرے اخراجات وہ ہیں جنہیں ہم ان ڈائریکٹ اخراجات کہتے ہیں ۔ جیسے اگر دھرنا فیض آباد میں ہو تو اسلام آباد کے جنوبی حصے کی آمد و رفت نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ کئی بار مکمل بند ہوجاتی ہے۔
روزانہ راولپنڈی سے اسلام آباد سفر کرنے والے افراد کی تعداد تقریبا 2 لاکھ ہے۔ یہ لوگ مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں سے منسلک ہیں۔ اس طرح دھرنوں سے انہیں سفر میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
صرف اسلام آباد ہی نہیں ملک کے مختلف شہروں میں بھی دھرنے ریکارڈ کیے خاتے ہیں مگر انکی تعداد اسلام آباد کے دھرنوں سے خاصی کم ہے۔ ہر سال کئی لوگ ان دھرنوں کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور کئی گھروں کے اکلوتے چراغ بجھ جاتے ہیں ۔ کتنے ہی غریبوں کی ساری زندگی کی جمع پونجی ایک لمحے میں جلا کر راکھ کر دی جاتی ہے اور وہ دھرنے انکے لئے ساری زندگی ایک ڈراؤنا خواب بن جاتے ہیں ۔
اس سب سے بڑھ کر ایسے دھرنے جس میں عوامی املاک کو نقصان پہنچایا جائے اور توڑ پھوڑ کی جائے اس سے بین الااقوامی سطح پہ ہمارا امیج اتنا مسخ ہوجاتا ہے کہ ہم طویل جدوجہد کے بعد خود کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے نکال کر گرے لسٹ میں لائے ہیں۔مگر اسکو بھی ابھی بہت سے چیلنجز در پیش ہیں اور اب دوبارہ ہم لوگ اقوام متحدہ کے نشانے پہ ہیں۔ اور اقوام متحدہ نے نئی پابندیوں کیلئے بھی خبردار کیا ہے ۔
ابھی حال ہی میں تحریک لبیک کادھرنا اس بات کی زندہ مثال ہے کہ ہم کتنے پرامن ہیں ۔ اس دھرنے میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پہ کتنے لوگوں کو تکلیف پہنچائی پنجاب پولیس کو یرغمال بنا کر ان پہ تشدد کیا گیا مگر حکومت کی طرف سے بھی حالات خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی ۔ تحریک لبیک کے کارکنان پہ شیلنگ سے لے کر لاٹھی ڈنڈے سب برسائے گئے مگر سوال یہ بھی ہے کہ جس دین میں راستے سے پتھر ہٹانے پہ بھی ثواب ملتا ہے وہاں عوام کو شدید تکلیف دے کر یہ لوگ کونسا اسلام کا بول بالا کر رہے تھے۔
دھرنا تو ہر شخص کا جمہوری حق ہے مگر کیا ہم کبھی بھی ایک پرامن اور منظم قوم ہونے کا ثبوت نہیں دے سکتے ۔ کیا ہمیشہ یہاں ہم جنگل کا قانون رائج رکھیں گے۔ یہی نہیں حکومت کو بھی اس کلچر سے نکلنا ہوگا اور کیونکہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ شاید ایک یہی طریقہ رہ گیا ہے جس سے گورنمنٹ عوام کی بات سننے پہ راضی ہوتی ہے ورنہ تو عوام چیختی رہے مگر حکومت کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
مگر ہمیں نظم ضبط کو زندگی کے ہر پہلو میں شامل کرتے ہوئے عام حالات سے لے کر دھرنوں تک میں اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دینا ہے اور اس توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ والے دھرنے سے نکل کر ایک پرامن دھرنے کی طرف جانا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی پرامن اور منظم ماحول فراہم کرتے ہوئے اسی چیز کا درس دینا ہے۔اور دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہم پاکستانی لڑائی جھگڑے کی بجائے بات چیت کو فوقیت دیتے ہیں ۔