سماء ٹی وی کے پروگرام ''ندیم ملک لائیو'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کا عمران خان سے رابطہ ہوا تھا، ان کی جانب سے ڈیمانڈز کی گئی تھیں کہ اگر آپ شہباز شریف کے علاوہ کسی کو بھی وزیراعظم بنا لیں تو مجھے قابل قبول ہوگا۔
میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے تو تمام شرطیں قبول ہونگی لیکن پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت کے لیڈر نے اس آفر کو یکسر مسترد کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان کی کسی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا تو ان کی جانب سے کہا گیا کہ کم از کم یہ تو کر لیں کہ شہباز شریف کو وزیراعظم نہ بنائیں۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ماضی قریب ودور میں سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر ایسا تب تک ہوتا رہا جب اس ملک کیلئے جب کچھ اچھا کرنے کی کوشش کی گئی۔ سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف اس کی واضح مثالیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک ان کی مرضی کیخلاف ہوئے فیصلے کو ختم کرانے کیلئے ایسا کرتی رہتی ہیں۔ مگر عمران خان خود بتا دیں کہ انہوں نے ایسا کون سا کام کیا کہ ان کیخلاف سازش ہو گئی۔