بظاہر تو پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے بیانیے کے ذریعے بات بڑی سادہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں عمران خان کا بہت بلند امیج بنانے کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ خان صاحب تاریخ عالم خصوصاً تاریخ اسلام کی سب سے بلند و بالا شخصیت ہیں۔ ان کے بارے میں بولا گیا ایک بھی تنقیدی لفظ کسی برگزیدہ ترین ہستی کی توہین کے مترادف ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت خوبصورتی اور چالاکی سے یہ تاثر بھی قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں صرف دو قوتیں ہیں؛ ایک فوج اور ایک پی ٹی آئی۔ بلکہ یہ تاثر قائم کر دیا گیا ہے کہ صرف پی ٹی ائی ہی ایک قوت ہے اور اسٹیبلشمنٹ یا فوج اس کے مد مقابل آنے کے لئے کوشاں ہے۔
حالانکہ کمان کی تبدیلی کے وقت جانے والے آرمی چیف نے اعلان کیا تھا کہ ادارہ جاتی سطح پر فوج نے ہر قسم کی سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور نئی فوجی قیادت نے اب تک بڑی جدوجہد سے سیاست سے دور رہنے کے فیصلے پر عمل کیا، بدترین حالات میں بھی غیر جانبدار رہی حتیٰ کہ واضح اعلان کیا کہ سیاسی مذاکرات سیاسی فریق خود کریں، فوج سیاسی مذاکرات یا فریقین میں مفاہمت کے لئے دستیاب نہیں۔ اور شاید نئی فوجی قیادت اسی لئے پی ٹی آئی اور خان صاحب کی نظروں میں کھٹکتی ہے کیونکہ وہ تو چاہتے ہیں کہ فوجی قیادت اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈالیں اور انہیں اقتدار میں واپس لائیں۔
اب ذرا پچھلے ایک سال خاص طور پر 29 نومبر 2022 کے بعد سے چلنے والے معاملات پر نظر ڈالیں، یہ وہ وقت ہے جس میں پی ٹی آئی اور خان صاحب نے سو طرح سے فوج کو سیاست میں لانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور جب ناکام رہے تو الزامات لگائے۔ میری اطلاع کے مطابق عمران خان کے علاوہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے جو الزامات لگائے گئے ان کی تفصیلی چھان بین ہو چکی ہے لیکن خان صاحب کی طرف سے الزامات مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔ ایسا میرے جیسے رپورٹنگ کرتے ہوئے سیاسی معاملات کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے والے رپورٹر کے نزدیک جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے مگر بیچ میں کبھی کبھار آصف زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان سمع خراشی کے لئے درمیان میں آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے فواد چودھری سے شاہ محمود قریشی اور اعجاز چودھری سے عمران خان صاحب تک وہ تاثر مکمل طور پر قائم نہیں کر سکے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ اس دوران عمران خان کو اسلام آباد پولیس وارنٹ وصول کرانے گئی تو جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ عدالتوں کے سامنے عمران خان کے رویے کے حوالے سے بھی بہت سے سوالات موجود ہیں لیکن کل سے جو ہوا اس کی نظیر پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔
ساری زندگی کی رپورٹنگ کا نچوڑ یہ ہے کہ واقعات کا یہ تازہ سلسلہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نہیں، میجر جنرل فیصل نصیر پر خان صاحب کے الزامات کی نئی قسط سے شروع ہوا۔ انہیں اندازہ تھا کہ چونکہ اب بہت ہو چکی اس لیے جواب بھی آئے گا اور وہ آیا۔ اور پھر عدالتی پیشی کے معمول کے عمل کے سے پہلے عمران خان نے بڑے طمطراق سے ایک اور بیان داغ کر 'مسٹر آئی ایس پی آر' کی نئی اصطلاح متعارف کرائی جبکہ خان صاحب بڑی توجہ کے ساتھ پچھلے کئی ماہ سے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کر رہے تھے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور اس کے لئے وہ سینیئر فوجی افسران کو بھی مورد الزام ٹھہراتے رہے اور ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کو باور کراتے رہے کہ وہ ہر گناہ سے پاک ہیں مگر انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
انہیں اچانک گرفتار کیا جائے گا، یہ تاثر قائم کرنے کے پیچھے کچھ مقاصد بھی ہوں گے مگر ساتھ ہی وہ اپنے لوگوں کو ردعمل کے لئے بھی تیار کر رہے تھے کیونکہ بس وہی یا ان کے چند قریبی ساتھی جانتے تھے کہ نیب ان کے خلاف کارروائی کو تیار بیٹھی ہے۔ جب انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رینجرز نے حراست میں لیا تو پھر اگلے منصوبے پر عمل ہوا اور پھر وہ ہوا جس کی منصوبہ بندی بہت پہلے کہیں کی جا چکی تھی۔ کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملہ ہوا، میڈیا اور سکیورٹی اداروں کی توجہ اس طرف ہوئی تو جی ایچ کیو پر حملہ ہو گیا اور پھر چل سو چل۔
اس حملے کا مقصد کیا تھا اس پر تو بات کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وہ مقاصد حاصل ہو گئے جو عمران خان حاصل کرنا چاہتے تھے مگر یہاں سکیورٹی اداروں کو شاباش ناں دینا بھی زیادتی ہو گی۔ جس تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا وہ بھی غیر معمولی ہے۔ آئی ایس پی ار کی بات بھی درست ہے کہ ساکھ داؤ پر لگا کر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا گیا لیکن اس سارے عمل کا نتیجہ وہی نکلا جو عمران خان اور ان کے ساتھی چاہتے تھے یعنی پی ٹی آئی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کا تاثر پختہ ہو چکا ہے مگر قانون قدرت ہے کہ جو نکتہ آپ کی طاقت ہو وہی آپ کی کمزوری بھی ہوتا ہے۔ یہی فلسفہ یہاں بھی بروئے کار ضرور آئے گا یعنی جو پروپیگنڈا پی ٹی آئی اور عمران خان کی طاقت ہے، ریاست کی طاقت کے مراکز کو نشانہ بنا کر عمران خان اسی پروپیگنڈا کا خود ہی شکار بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔